• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باسٹھ ترسٹھ کی وضاحت کیلئےترمیم پیش کرنےمیں قباحت نہیں،ماہرین قانون

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)ماہرین قانون نے کہا ہے کہ نواز شریف جن ججوں پر تنقید کرتے رہے انہی کے پاس اپنی التجا لے کر گئے ہیں،احتساب عدالت کی سپرویژن کیلئے سپریم کورٹ کے جج کا تقرر عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے،ججوں کو کسی بھی کیس کا فیصلہ بالکل غیر متعصب ہو کر دینا چاہئے،کسی شخص کے کنڈکٹ سے اس کے صادق اور امین ہونے کا تعین کیا جاسکتا ہے، جی ٹی روڈ مارچ میں نواز شریف اور وزراء کی تقریروں پر ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے،نواز شریف نے یہ کہہ کر خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے کہ ہمیں جمہوریت چاہئے یا عدلیہ چاہئے،اس طرح نواز شریف آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کی طرف جارہے ہیں،نواز شریف کی تقریر کے بہت سے حصے آرٹیکل 204کواٹیک کررہے ہیں،امید ہے نواز شریف اپنے الفاظ کو بہتر بنائیں گے،عدالت سے بھی امید ہے کہ وہ ان پر آرٹیکل 204 لاگو نہیں کرے گی،آئین میں آرٹیکل 62/63کی وضاحت کیلئے ترمیم پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے،صوبائی یا قومی اسمبلی آئین کے منافی قانون سازی کرے تو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ بار کے صدر رشید اے رضوی،سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار احمد اویس،سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ اور ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سپریم کورٹ بار کے صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ نواز شریف جن ججوں پر تنقید کرتے رہے انہی کے پاس اپنی التجا لے کر گئے ہیں، سپریم کورٹ کو نواز شریف کے تنقیدی بیانات کی وجہ سے متعصب نہیں ہونا چاہئے اور میرٹ پر فیصلہ کرنا چاہئے،اگر کوئی دوسری بنچ نواز شریف کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس لے رہی ہے تو لے سکتی ہے، ریویو پٹیشن میں کامیابی کا امکان بہت محدود ہوتا ہے، پاناما کیس میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی اس صورتحال میں عدالت کا اپنے احکامات معطل کرنا بہت مشکل ہے۔

رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ بیس اپریل کے احکامات پر اختلاف کرنے والوں کو دستخط نہیں کرنے چاہئے تھے بلکہ صرف اکثریتی جج دستخط کرتے، جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد عملدرآمد بنچ کا کام ختم ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اعتراضات سنے اور پھر پانچ ججوں نے فیصلہ دیا، یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب دو ججز پہلے ہی اختلافی نوٹ لکھ چکے ہیں انہوں نے کیوں حتمی فیصلے پر دستخط کیے۔انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کی سپرویژن کیلئے سپریم کورٹ کے جج کا تقرر عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے،سپریم کورٹ کا جج اگر نیب کورٹ کے سرپر سوار رہے گا تو احتساب عدالت کے فیصلے پر سوال ہی کھڑے رہیں گے۔ سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار احمد اویس نے کہا کہ ججوں کو کسی بھی کیس کا فیصلہ بالکل غیرمتعصب ہو کر دینا چاہئے، ریویو پٹیشن کو بہت محدود پیرامیٹرز میں دیکھا جاتا ہے، تمام وہ سوال جن پر کیس کی سماعت میں بحث ہوچکی ہوتی ہے ریویو میں ان پر دوبارہ بات نہیں کی جاتی اس لئے کامیابی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کے حتمی فیصلے پر پانچوں ججوں کے دستخط کرنا سمجھ میں آنے والی بات ہے، بیس اپریل کو دو ججوں کے اختلافی نوٹ کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ پر فائنڈنگز تین ججوں نے ہی دیں، تینوں ججوں کی آبزرویشنز کے بعد حتمی فیصلے کیلئے پورا بنچ بیٹھا ، چونکہ حتمی فیصلہ پانچ ججوں نے سنانا تھا اس لئے پانچوں ججوں نے یہ فیصلہ کیا۔ احمد اویس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا جج احتساب عدالت کی کارروائی کی صرف نگرانی کرے گا، وہ جج ٹرائل ،پراسیکیوشن یا کسی جگہ بھی مداخلت نہیں کرے گا بلکہ کارروائی کی شفافیت اور بروقت ہونے کی نگرانی کرے گا، ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، کراچی میں بھی ایک جج مانیٹرنگ کیلئے مقرر کیا گیا تھا، چیئرمین نیب کے رویے کو دیکھتے ہوئے اگر سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے نگرانی کیلئے ایک جج مقرر کردیتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

احمد اویس نے کہا کہ 2004 ء میں بطور صدر ہائیکورٹ بار پرویز مشرف کا ٹرائل کرکے سزا دینے کا موقف اختیار کیا تھا، اگر اس وقت ایسا کرلیا جاتا تو پاکستان کے حالات سیدھے ہوجاتے، کسی شخص کے کنڈکٹ سے اس کے صادق اور امین ہونے کا تعین کیا جاسکتا ہے، ترقی یافتہ اقوام میں بھی جھوٹے ڈیکلریشن کی بہت سخت سزا ہے، سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری پر آرٹیکل 62/1Fکے تحت بہت سے ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دیا ہے، آرٹیکل 62/63صرف اس وجہ سے آئین سے نہیں نکالا جاسکتا کہ یہ ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیا تھا، آرٹیکل 62/63کا صحیح استعمال کرنا ضروری ہے۔

احمد اویس کا کہنا تھا کہ جی ٹی روڈ مارچ میں نواز شریف اور وزراء کی تقریروں پر ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے، آرٹیکل 204میں واضح لکھا ہے کہ ججوں سے متعلق ایسی باتیں کہنا توہین عدالت ہے جو اسکینڈلائز کرتی ہوں، نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا۔

تازہ ترین