• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے مطابق نیب فوت ہوچکا کیا نوازشریف وہاں جاکر فاتحہ پڑھیں، رانا ثناء

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہےکہ نواز شریف قانونی ٹیم سے مشورے کے بعد نیب میں پیش ہونے کا فیصلہ کریں گے، سپریم کورٹ کے مطابق نیب فوت ہوچکا ہے تو کیا نواز شریف وہاں جاکر فاتحہ پڑھیں گے، نیب قانون میں تحقیقات اور ریفرنسز دائر کرنے کا پورا طریقہ کار موجود ہے، لیکن شریف خاندان کیخلاف کیس میں ریفرنس دائر کرنے اور فیصلہ کرنے کی مدت مقرر کردی گئی ہے، اس طرح نیب میں تحقیقات کے وقت جو حق ہمیں ملنا ہے وہ نہیں ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نیب کی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے،اگر نیب افسران آزادانہ تحقیقات کی حامی بھرتے ہیں تو نواز شریف کو بالکل نیب کے سامنے پیش ہونا چاہئے، اگر ہمارے خلاف فیصلے ہوچکے ہیں تو پھر عوام کا فیصلہ بھی زیادہ دور نہیں ہے، عوام کا فیصلہ تمام فیصلوں کے اوپر بھاری ہوگا۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے اور پھر نہ بنانے کا دونوں فیصلے پارٹی نے کیا، شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی میں ہوا، نواز شریف نے خود اس فیصلے کا اعلان کیا تھا، سب سے پہلے میں نے بات کی کہ شہباز شریف کو پنجاب سے نہیں جاناچاہئے، پارٹی نے اس پر دیگر لوگوں کی رائے سننے کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی کی۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ن لیگ کے قائم مقام صدر کا انتخاب عارضی طور پرکیا گیا ہے جبکہ مستقل صدر کا انتخاب مرکزی کونسل کے اجلا س میں کیا جائے گا، ن لیگ کے آئین کے مطابق مستقل پارٹی صدر کا انتخاب مرکزی کونسل کرتی ہے جس کے ارکان کی تعداد ہزاروں میں ہے، پارٹی میں اتفاق ہے کہ شہباز شریف پارٹی صدر ہوں تو زیادہ بہتر ہوگا، اگر کوئی پارٹی رہنما مشاورتی عمل میں شریک نہیں ہوا تو وہ کسی فیصلے پر اختلاف رائے کرسکتا ہے، سی ڈبلیو سی اس کے اعتراض پر غور کرتی ہے، چوہدری نثار نے پارٹی کو نہیں پارٹی میں کچھ لوگوں کو خوشامدی کہا ہے، پارٹی میں اختلاف رائے کا احترام ہونا چاہئے۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ میں چوہدر ی نثار کی پوری بات نہیں سمجھا ہوں، میری بھی چوہدری نثار سے کچھ شکایات ہیں جن کا ازالہ نہیں ہوا لیکن میں یہ شکایت انہی سے کروں گا،چوہدری نثار کے علم میں لایا تھا کہ مجھے کس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے، اس معاملہ میں چوہدری نثار ایک کردار ادا کرسکتے تھے، چوہدری نثار نے اس حوالے سے متعلقہ فورم پر بات کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا، میری شکایات کسی ادارے کے ساتھ نہیں ہے، مجھے کسی ادارے سے اختلاف نہیں لیکن اداروں میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، یہ بات میں صرف پارٹی قیادت سے کرسکتا تھا یا چوہدری نثار چونکہ متعلقہ آدمی تھے اس لئے ان سے بات کی تھی، چوہدری نثار کی اپنی رائے ہے تو تجربات کی روشنی میں ہماری بھی اپنی رائے ہے، چوہدر ی نثار جب اور جیسے چاہیں اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔

سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب راجہ عامر عباس نے کہا کہ نیب قانون کے تحت ملزمان کو ذاتی طور پر تحقیقات کیلئے بلایا جاسکتا ہے، اگر تحقیقاتی افسر کسی ملزم کو گرفتار کرنا چاہے تو چیئرمین نیب سے وارنٹ گرفتاری لے کراسے گرفتار بھی کرسکتا ہے، پہلی پیشی پر بھی کسی کو گرفتار کیا جاسکتا ہے جبکہ پیشی سے پہلے بھی گرفتار کر کے لایا جاسکتا ہے، شریف خاندان کی پیشی نہیں بلکہ تحقیقات کیلئے بلایا گیا ہے، نیب ملزمان کا نوے روز کا ریمانڈ حاصل کرسکتا ہے، ریمانڈ کے دوران ملزم کی ضمانت نہیں ہوتی ہے۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ نیب شریف خاندان کا کیس چھ مہینے میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے کیس میں تاخیر ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ کہہ دیتی ہے کہ بادی النظر میں نیب کا ریفرنس بنتا ہے تو نچلی عدالتوں پر اس کا لازماً اثر ہوگا۔

سینئر تجزیہ کار طلعت حسین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اسطرح کا برتائو کر رہے ہیں جس سے نظر یہ آرہا ہے کہ ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے، وہ بڑے عرصے سے یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ میرے سینے میں بہت سے راز پوشیدہ ہیں لیکن نا اہلی کے بعد انہوں نے غیر ملکی اردو نیٹ ورک کو انٹرویو دیا پھر بھی انہو ں نے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے دھرنے کے بعد سے کہتے آرہے تھے، جو نیوز لیکس اور جے آئی ٹی کے سامنے انہوں نے باتیں کیں ، اور یہ ہی باتیں انہوں نے چار روزہ مارچ میں بھی کیں، لگتا ایسا ہے کہ نوا ز شریف کے پاس اخلاقی جرات نہیں ہے یا ان کے پاس جو راز پوشید ہ ہیں اور وہ جن کے بارے میں ہیں اگر یہ بتائیں گے تو وہ پھر نوا زشریف کے بارے میں بات کریںگے کہ نوا زشریف ماضی میں کیا کرتے رہے ہیں.

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ نا اہلی کے بعد جمہوریت کا بخار چڑھ جانا اچھی بات ہے اور ہم نے بطور پالیسی نوا ز شریف کی نااہلی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا، اس وقت جو انہوں نے تانا بانا بن دیا ہے اس میں سے وہ کچھ نکا ل نہیں پارہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نوا ز شریف کے منہ سے اگر ایسے نام سامنے نہیں آرہے جو ان کے بیان کے مطابق مبینہ طور پر سا زش میں ملوث تھے اور ظاہر ہے اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں تو عوام کو یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ سڑکوں پر آکر جمہوریت کا دفاع کرو، انہوں نے مزید کہاکہ نوا زشریف اندرونی کشمکش کا شکار ہیں اور یا تو ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بولیں گے تو اس کے نتائج بھی ہوں گے.

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ نوا ز شریف کے پاس کیا ایسے راز ہوں گے جو وہ افشاں کردیں گے اور وہ کیا ایسی باتیں ہیں جو انہوں نے دوسروں سے نہیں کیں، ان کا کہنا تھا کہ انٹرویو میں نوا زشریف کا کہنا کہ ہر وزیرا عظم کو  ڈیرھ سال ملا یہ حساب ان کا غلط ہے، اگر پاکستان کے ستر سال کے تناظر میں دیکھیں تو ڈیرھ سال بنتا ہے لیکن میاں محمد نوا زشریف کو بطور وزیرا عظم ساڑھے نو سال ملے ہیں اور اگر ان کے دو وزیر اعلیٰ دور کو بھی شامل کرلیں تو پانچ سال بنتے ہیں، پانچ سال ضیاء الحق کے دور میں یہ وزیر خزانہ رہے، اسی طرح شہباز شریف 12سال سے پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں.

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ جن سازشیوں کی یہ بات کرتے ہیں ان میں سے بہت سے انہوں نے خود چنے ہیں، نوا ز شریف قوم سے معذرت کئے بغیر جو طالع آزمائوں پر الزام لگاتے ہیں وہ پورے طریقے سے لگا سکتے ہیں یا تو کہیں کہ ضیاء الحق کی موت پر یہ روئے نہیں یا یہ کہیں کہ یہ ضیاء دور میں وزیر خزانہ نہیں رہے ، ان کو ان چیزوں پر معذرت کرنی چاہئے ، لگتا ایسا ہے کہ یہ اپنے ووٹر سے ہی بات کر رہے ہیں  اور کوئی قائل کردینی والی دلیل ان کے پاس سے نہیں آئی.

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ اگر نوا ز شریف نام لیتے ہیں جنر ل مشرف کو تو ان کی آدھی سے زیادہ کابینہ تو نوا ز شریف نے اپنے ساتھ بٹھائی تھی، ان کے دفاع کرنے والے ہوں،دانیال عزیرہوں یا ماروی میمن یہ سب مشرف کے ساتھ تھے، اسی طرح راحیل شریف کو بھی یہ خود لائے تھے اور کہا اس سے بڑا جنریل آیا نہیں، جنرل قمر باجوہ کو جب آرمی چیف  بنایا گیا توکتنی خوشی کے ساتھ تصویریں کچھوائیں.

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ جب نوا ز شریف کو دھکا لگا تو انہیں ساری خرابیاں نظر آئی ہیں، نوا ز شریف کو جوابات کی تلاش اپنے گریبان میں جھانک کرنی چاہئے  اور ان کو چاہئے یا تو وہ نام لیں سازشی عناصر کا یا خاموشی سے بیٹھ جائیں ،اگر وہ اشاروں کنایوں میں بات کریں گے اور دوسروں کو کہیں گے کہ میری جنگ لڑیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

تازہ ترین