• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کی کمی، ترقی پزیر ممالک کی معیشت کیلئے صورتحال انتہائی تشویشناک

لاہور ( رپورٹ :نوید طارق )پانی کی کمی کے حوالے سے ترقی پزیرممالک کی معیشت کیلئے صورتحال انتہائی تشویشناک ہوچکی ہے،انسانی وجود کے لیے پانی کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی جسم کا 50سے 75فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے ، بالغ کے جسم کا 50سے 65جبکہ ایک سال سے کم عمر شیر خوار کے جسم کا 75سے 78فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے ۔

دوسری جانب زمین پر موجود کل میں سے 75فیصدپانی گلیشیئرز جبکہ بقیہ 22.25 سمندروں کا حصہ ہیں اور صرف 2.75فیصد تازہ پانی ہے جس (تازہ پانی) میں سے70فیصد زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ گزشتہ دہائیوں میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ نے پانی کے استعمال کو بھی کئی گنا بڑھا دیا ہے جس سے اس کے ذخائر پر دبائو فطری امر ہے ۔ 52برسوں میں150سے زائد ممالک میں تازہ پانی(دریائوں میں موجود پانی اور بارش سے چارج ہونے والے پانی کے زیر زمین ذخائر) کے فی کس ذخائر 5سے 99فیصد تک کم ہو چکے ہیں ۔

1962-2014ء میں تازہ پانی کے ذخائرمیں ہونے والی فی کس کیوبک میٹرکمی میں یو اے ای پہلے ، قطر دوسرے ، اردن چوتھے ، بحرین پانچویں ،سعودی عرب چھٹے، یمن و صومالیہ 15نمبر پر ہیں ، یوں پانی کی کمی کے شکار 10اولین ممالک میں سے 6عرب خطے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ عرب ممالک میں یوں تو تازہ پانی کی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم تیل کے پیداوار ی ممالک ہونے کی حیثیت سے یہ ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے سے اس کمی کوقومی مسئلہ نہ بننے دیں جبکہ اس کے مقابل پانی کی کمی کے شکار دیگر ترقی پزیر ممالک کے لیے یہ مسئلہ ان کی مستقبل کی معیشت کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔

تازہ پانی کی کمی کے شکار ممالک میں عراق 24ویں، پاکستان و مالدیپ 32،بھوٹان 36،اسرائیل 52، افغانستان57، ایران 58، ملائیشیا 59، بنگلہ دیش69، مصر 70، سنگا پور 73،لبنان 83، بھارت و انڈونیشیا85،ترکی و نیپال 88، برازیل 91، آسٹریلیا 103، سری لنکا 111، برطانیہ 140اور جرمنی 150ویں نمبر پر ہے ۔

جنگ ڈیولپمنٹ رپوٹنگ سیل نے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط عالمی بنک کے اعدادوشمار پر تازہ پانی کی فی کس دستیابی میں ہونے والی کمی کے حوالے سے ڈیڑ ھ سو سے زائد ممالک کی جو درجہ بندی کی ہے اس کے مطابق متحدہ عرب امارات میں 52برسوں میں تازہ پانی کی فی کس (کیوبک میٹر ) مقدار میں 99 فیصد کمی ہوئی ، قطر97، جبوتی90، اردن 89 ،بحرین 87، سعودی عرب86، عمان85،  آئیوی کوسٹ83 ،انڈورا، نائیجر،یوگنڈااور کینیا81، گیمبیا اور تنزانیہ 80 ، زیمبیا ، یمن اور صومالیہ79، سولومن آئی لینڈ ز، ماریشیئس، ٹوگو  ،انگولا، ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، برونائی دارلسلام اور عراق78،وسطی افریقی ملک استوائی گنی اورملاوی اورچاڈ ، مڈاغاسکر، کانگواورسینگال77، پاکستان ،مالدیپ ،ہنڈراس ،کیمرون اوربنین 76، بھوٹان،  لیبیا، بوٹسوانااور شام75، آسٹریلیا کے شمال میں جزائر پر مشتمل ملک وانواتو،زمبابوے ،کوموروس اورگھانا 74، گبون، لائبیریا،روانڈا، نمبیبیا، پاپوا نیو گنی اور نائجر73 ، بلیز ،سوازی لینڈ،اسرائیل ، برکینا فاسو،موزیمبیق، فلپائن ،گوئٹے مالا اور افغانستان 72، ایران ، ملائیشیا ،وینزویلا اور برونڈی71 ، ایکو اڈور، الجیریااورکوسٹا ریکا70،پاناما، پیرا گوئے ،ناکارگوااور گنی 69،بنگلہ دیش ،مصر، بھماس ،مالی اور سنگا پور68، سری لیون اورمیکسیکو 67، افریقہ کے مغری ساحل کے قریب جزائر پر مشتمل ملک سائو ٹومے و پرنسپے، لائو ، ڈومینیکن ریپبلک ،پیرو اور جنوبی افریقہ 66،سنٹرل افریکن ریپبلک ،لبنان اور منگولیا 65، بھارت، بولیویا اورانڈونیشیا64 ، کمبوڈیا،ترکی ،گنی بسائواور نیپال63 ، برازیل ،مراکش اور  ہیٹی62، کولمبیا اورتیونس61،انٹی گووا  اینڈ بارباڈووا، ویت نام اورمغربی افریقی ملک کیپ ورڈی 60،لیسوتھو 59، تھائی لینڈ 58، میانماراور مشرقی تیمور57 ، چلی اور آسٹریلیا 54، ایل سلواڈور،ٹرینیڈا اینڈ ٹوبیگواورڈیموکریٹک ریپبلک کوریا 53 ،فجی52 ، چین51، ارجنٹائن، قبرض اورسری لنکا50، کینیڈا ،کوریااور سینٹ لوشیا48 ،  نیوزی لینڈ اورماریشئیس45 ،آئس لینڈ اور سوری نام44،  یوراگوئے ، لیگزمبرک اور جمیکا 42 ،امریکہ اور  البانیہ41، آئر لینڈ39 ، کیوبا35، سپین 33،سوئٹزر لینڈ32 ،پورٹوریکو 31، ہالینڈ30، ناروے29 ، فرانس28 ، جاپان25 ، بحرہ کریبیئن میںجزائر پرمشتمل ملک سینٹ وینسینٹ و گریناڈائنز اورمالٹا24، یونان اورسویڈن22، گیانا 21،  ٖپولینڈ20، فن لینڈ ، برطانیہ، بارباڈوس، ڈنمارک اور بلجیم18،آسٹریا 17،اٹلی16،ڈومنیکا15 ،پرتگال14، گریناڈا13، جرمنی9 ،رومانیہ7 اورامریکہ کے قریب جزائر پر مشتمل ملک سینٹ کیٹز و ناویس میں تازہ پانی کی فی کسی (کیوبک میٹر ) دستیابی میں 5 فیصد کمی ہوئی۔ 

تازہ ترین