• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو داعش کا بڑا ہدف قرار دیتے ہوئے انہیں اس دہشت گرد تنظیم اور اس سے منسلک گروپوں کے پروپیگنڈے سے ہوشیار اور محتاط رہنے کا نہایت صائب مشورہ دیا ہے۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں گزشتہ روز انٹرن شپ مکمل کرنے والے نوجوانوں سے ملاقات اور خطاب میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ذہین اور متحرک نوجوانوں سے نوازا ہے اور ملک کا مستقبل ا ن ہی سے وابستہ ہے۔انہوں نے اس یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ پاکستان کو استحکام و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کریں گے نوجوانوں کو تلقین کی کہ وہ کامیابی کے لیے شارٹ کٹ تلاش نہ کریں بلکہ میرٹ اور قانون کی حکمرانی کا راستہ اپنائیں۔ کامیابی اور ترقی کے لیے اللہ پر ایمان، والدین کے احترام اور سخت محنت پر انحصار کریں۔آرمی چیف نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ پاک فوج اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور انہیں محفوظ اور مستحکم پاکستان فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے ۔ فوج نے دہشت گردی سے ملک کو نجات دلانے میں مثالی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جنرل باجوہ نے اس موقع پر دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر جاری انتہاپسند تنظیموں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہونے کی ہدایت کی کیونکہ جدید تعلیم سے آراستہ نوجوان متشدد تنظیموں خصوصاً داعش کا بڑا ہدف ہیں۔بلاشبہ دہشت گرد تنظیموں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جنم لینے اور بہت بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی کارروائیاں کرنے والی تنظیم داعش کے پھلنے پھولنے کا بنیادی سبب جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اس کی فکر اور فلسفے سے متاثر ہونا ہے۔اس تنظیم کی کارروائیاں صرف مسلم ملکوں تک محدود نہیں بلکہ کئی مغربی ملک بھی اس کی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ تازہ ترین واردات اسپین کے شہر بارسلونا کی ہے جس میں ایک شخص نے راہ چلتے لوگوں پر وین چڑھادی اور اس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ایک عرصے تک انتہاپسندی کا تعلق دینی مدارس سے جوڑا جاتا رہا ہے لیکن رفتہ رفتہ جدید طرز کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل یا ان میں زیر تعلیم نوجوانوں کی ان تنظیموں سے وابستگی بڑھنا شروع ہوئی اور اس رجحان میں کمی کے بجائے ا ضافے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اس بناء پر اگرچہ نوجوانوں کو انتہاپسند تنظیموں کے سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے سے ہوشیار رہنے کی نصیحت بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ داعش اور اس کی ہم خیال تنظیموں کے دلائل اور فکر و فلسفے کا پوری طرح جائزہ لے کر ان کی غلطی واضح کی جائے اوربتایا جائے کہ جن اسباب کی بنیاد پر یہ تنظیمیں مسلمان نوجوانوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواز کاقائل کرتی اور ان میں شریک ہونے پر ابھارتی ہیں،اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں ان حالات میں کیا طرز عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔اس مقصد کے لیے صحیح الفکر اور مستند علمائے کرام اور اسلامی اسکالروں کی ایک ٹیم کو داعش اور اس کی ہم خیال تنظیموں کی فکر اور فلسفے کا جائزہ لینے اور اس کے مقابلے میں اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کرنے کا مشن سونپا جانا وقت کا عین تقاضا ہے۔ اس حقیقت کو واضح کیا جانا چاہیے کہ بے انصافی اور ظلم کے مقابلے میں دہشت گردی اور بے قصور و غیرمتعلق لوگوں کو ہلاک کرنا قرآن کی رو سے صریحاً ناجائز ہے جس نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے برابر سنگین جرم قرار دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی بے انصافیوں اور مظالم پر مبنی وجوہات کو بھی عالمی رائے عامہ کے سامنے پوری شرح و بسط کے ساتھ لایا جائے اور انہیں دور کرنے کی خاطر عملی اقدامات کی ضرورت کا احساس دلایا جائے جو مسلمان نوجوانوں میں انتہاپسندتنظیموں کی مقبولیت کا باعث بن رہی ہے کیونکہ انتہاپسندی کو فروغ دینے والے اسباب کے ازالے کے بغیر اس طرز فکر کا خاتمہ ممکن نہیں۔

تازہ ترین