• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں پانامہ لیکس کے حوالے سے پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی، بے چینی اور عدم استحکام کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ تیزی سے زوال کی طرف جا رہی ہے۔ 24مئی2017کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس بلند ترین سطح یعنی52876 پوائنٹس تک پہنچ گیا تھاجومسلسل شدید مندی کے بعد تقریباً 42ہزار کی سطح پر آگیا ہے، جمعرات کو جب ذرائع ابلاغ نے یہ خبر جاری کی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پانامہ لیکس کی تفتیش کے لیے نیب نے طلب کر لیا ہےتو اسٹاک مارکیٹ کو شدید دھچکا پہنچا اور ایک ہی روز ہنڈرڈ انڈیکس میں1051 پوائنٹس کی کمی آگئی۔ تجارت کے حجم میں10فیصد سے بھی زائد کمی آئی۔ غیرملکی سرمایہ کاروں نے53.5ملین پونڈ کے حصص دھڑا دھڑ بیچ دیئے۔ مقامی سرمایہ کار بھی کمپنیوں کے حصص خریدنے کی بجائے سودے کلیئر کرانے کی کوشش کرتے رہے جس سے انہیں اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تین سو سے زیادہ کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں گر گئیں۔ مارکیٹ میں زیادہ سیلنگ مقامی بروکروں، میوچل فنڈز اور غیر ملکی فنڈز کی طرف سے آئی جبکہ بینکوں، اداروں اور انشورنس کمپنیوں کی طرف سے خریداری کا رجحان قائم رہا۔ زیادہ کاروبار ٹیکسٹائل، بینکوں اور اسٹیل سیکٹر کی کمپنیوں میںہوا۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کی بڑی وجہ ملک کی دگرگوں سیاسی صورت حال اور آئندہ حکومت کے متعلق قیاس آرائیاںہیں۔ سیاسی پارٹیاں جہاں ایک دوسری کو نیچا دکھانے اور جلد از جلد اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچنے کی کوشش میں آپے سے باہر ہو رہی ہیں وہاں ملکی معیشت کا تیز رفتاری سے چلنے والا پہیہ سست ہونے لگا ہے۔ اگرچہ ن لیگ کی حکومت اب بھی برسر اقتدار ہے اور اپنی معاشی پالیسیاں بروئے کار لانے میں پرعزم دکھائی دیتی ہے مگر سرمایہ کار ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے تاجروں صنعت کاروں، سرمایہ کاری کرنے والوں، خریداروں اور عام آدمی کا اعتماد بحال کیا جائے۔

تازہ ترین