• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محاورے کی بات اور ہے لیکن میں سچ مچ دن میں تارے دیکھنے والا ہوں۔ اور 21اگست یعنی پیر کے دن اس جیون میں ایک بار تسم کے تجربے کے لئے لاکھوں امریکی بے چین ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں اس مکمل سورج گرہن کی بات کر رہا ہوں۔ جو اس دفعہ صرف امریکہ میں دیکھا جائے گا۔ آپ اس آسمانی معجزے کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہوں گے کیونکہ میڈیا میں ایک عرصے سے اس کا ذکر ہو رہا ہے اور اب جبکہ پردہ اٹھنے کا منتظر ہےنگاہ، تو عالمی سطح پر بھی اس کی جانب توجہ میں اضافہ ہوا ہے۔ میرے لئے اس گرہن کے تذکرے کا جواز یہ ہے کہ میں ان دنوں امریکہ میں ہوں اور ہمارا چھوٹا سا خاندان جو بڑی بیٹی کے گھر لاس اینجلس میں جمع ہے اس حیرت انگیز تجربے میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ آپ کہیں گے کہ پہلے آپ دن میں تارے دیکھ لیں اور پھر سب کو بتائیں۔ کہانی تو تب ہی بنے گی۔ ٹھیک ہے ۔۔ لیکن میں اس ہلچل اور بے شمار سرگرمیوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو امریکہ میں کئی ہفتوں سے جاری ہیں۔ سورج اور چاند کے گرہن تو ہوتے رہتے ہیں۔ سورج گرہن کا قصہ یہ ہے کہ ہر 18مہینوں اور دو سال کے درمیان وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کہیں جزوی اور مکمل ،دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں دیکھا بھی جاتا رہا ہے۔ 21اگست کے سورج گرہن کی خاص بات یہ ہے امریکہ میں اس طرح دیکھا جائے گا کہ ملک کی ایک خاص پٹی پر مکمل سورج گرہن ہو گا اور اس طرح کا منظر امریکہ ایک سو سال بلکہ دراصل 99سال بعد دیکھ رہا ہے۔ ابلاغ کی جو صورتحال ہے اور امریکہ کس قسم کا ملک ہے اور اس کامعاشرہ کیسی دلچسپیوں میں کتنے انہماک سے حصہ لیتا ہے اور کیسے ہر شوق کا ایک کمرشل پہلو بھی ہوتا ہے اس کا مظاہرہ میں دیکھ رہا ہوں۔ اور کیونکہ ہم نے مکمل سورج گرہن دیکھنے کی تیاری کی ہے تو گویا میں بھی کسی حد تک اس جنوں کا حصہ ہوں اور اسے محسوس کر سکتا ہوں۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ملک کی ایک پٹی پر مکمل سورج گرہن دیکھا جائے گا۔جزوی گرہن کا دائرہ زیادہ وسیع ہے یہ پٹی کوئی70میل چوڑی ہے ۔شمال مغربی ریاست اوریگان سے لے کر مغرب میں جنوبی کیرو لائینا تک مکمل سورج گرہن کا وقفہ تقریباً تین گھنٹے کا ہے اور اس کا آغاز دوپہر سے پہلے ہو گا لیکن کسی بھی مقام پر مکمل سورج گرہن دو منٹ سے کچھ زیادہ ہو گا اور گرہن کے سفر کے دوران اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اب اصل معرکہ یہ ہے کہ آپ مکمل سورج گرہن دیکھیں ۔یعنی اس70میل چوڑی پٹی پر ان مختصر لمحوں کے لئے اپنی جگہ بنائیں اب آپ یہ سوچئے کہ اگر لاکھوں افراد 20لاکھ ،30لاکھ اس پٹی پر اکٹھا ہو جائیں تو کیا کیفیت ہو گی ظاہر ہے کہ مکمل سورج گرہن کے راستے میں کئی شہر اور کھلے میدان پڑتے ہیں لیکن سڑکیں،ہوٹل مکان اور دوسری سہولتیں محدود ہیں، اب جو سماں بن رہا ہے اسے میں دیکھ رہا ہوں۔ ہماری اپنی کہانی بھی اسی میں شامل ہے۔ پاکستان سے ہماری روانگی سے بہت پہلے ہی پروگرام بننا شروع ہو گیا تھا کہ مکمل سورج گرہن دیکھنا ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ قریب ترین مقام تک پہنچنے کے لئے 12گھنٹے سے زیادہ کا زمینی سفر کرنا تھا یہ خوف اب بھی ہے کہ مکمل سورج گرہن کے علاقے سے پہلے ہی کتنے میلوں تک لوگ ٹریفک جام میں پھنس جائیں گے۔ اس پٹی کے معمولی ہوٹلوں کے کمروں کا ایک رات کا کرایہ بھی پاکستانی کرنسی میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے۔ میری بیٹی نے کہا کہ کوئی گھر خریدنا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کوئی جگہ کرائے پر مل جائے۔ گویا جس سفر کی ہم نے تیاری کی ہے اس کی ایک الگ داستان ہے۔ باقاعدہ ہدایات جاری کی جاتی رہی ہیں کہ ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا کچھ ساتھ لے کر چلیں۔ اس تجربے کا ایک مختصر سفر نامہ میں شاید بعد میں لکھ سکوں۔ ابھی تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ایک پہاڑ سر کرنا ہے اور ایک ایسا منظر دیکھنا ہےجو حقیقی سے زیادہ افسانوی تاثر پیدا کرے۔
جو بات سورج گرہن سے پہلے بتانے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دلچسپی کا کیا عالم ہے جس دن ہم وہاں پہنچے اس کے اگلے دن نیویارک ٹائمز نے ایک دو نہیں بلکہ پورے 12صفحات پر مشتمل ایک ضمیمہ سورج گرہن کے بارے میں شائع کیا۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ سیاروں اور ستاروں کی گردش کے اسرار و رموز کیا ہیں اور انسانی تہذیب کی داستان میں سورج اور چاند گرہن کے بارے میں تصورات اور علم کا سفر کیا رہا ہے۔ اس سورج گرہن نے امریکہ میں فلکیات کے بارے میں عوامی دلچسپی کو بیدار کیا ہے۔ خلائی تحقیق کے قومی ادارے نے بے شمار پروگرام ترتیب دیئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آپ جیسے خلا میں پرواز بھی کر سکتے ہیں۔ ایک اور پہلو پر بھی کافی زور دیا جا رہا ہے کہ آپ مکمل سورج گرہن کس طرح دیکھیں۔ اور کیا محسوس کریں۔ یعنی اس طلسماتی تجربے کا ذاتی، نفسیاتی اور جذباتی ردعمل کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔ جن میں خاص چشموں سے گرہن کو دیکھنا ضروری ہے ان کی طلب بھی بہت ہے۔ کیونکہ گرہن تو ہوتے رہتے ہیں اسلئے کسی مکمل سورج گرہن کا اپنی آنکھوں سے دیکھنا کوئی اچھوتی بات نہیں ہے۔لیکن اس کی بڑی تفصیل ہے کہ جب چاند کے سائے میں سورج پورا چھپ جاتا ہے اور فقط روشنی کی ایک لکیر کا دائرہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کا ماحول اور افسانوں اور جانوروں پر کیا اثر پڑتا ہے۔روشن دان جیسے اچانک رات کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ جانور بدحواس ہو جاتے ہیں۔ دو تین منٹ کے لئے ہی سہی۔ قدرت کا یہ کرشمہ کتنا حیرت انگیز ہے اور اسے محسوس کرنا زندگی کا ایک یادگار تجربہ ہے۔اس کائنات کے بارے میں سوچنا ہی اپنی جگہ انسانی ذہن کی بے پایاں وسعتوں کی گواہی دیتا ہے اور اب تو سائنس نے خلا کی تحقیق کے ذریعے تصورات کی سرحدوں کو بھی مٹا دیا ہے لیکن ٹھہریئے ۔۔اس گرہن یا کسی بھی گرہن کا صرف سائنس ہی سے تو تعلق نہیں۔ جوتشی بھی تو قدیم زمانے سے ستاروں کی گردش سے انسانوں کی تقدیر کا زائچہ بناتے رہے ہیں۔یہ ایک بالکل الگ مضمون ہے اور اس سورج گرہن کے حوالے سے نجومی کیا کہہ رہے ہیں اس کی تفصیل میں جانا اب میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ ہاں، ہمہ گیر تبدیلیوں کا عمل تو پاکستان میں بھی دیکھ رہے ہیں اور یہاں امریکہ میں ٹرمپ کا اقتدار بھی گہنا سا گیا ہے۔ اختر شناس کیا کیا کہہ رہے ہیں یہ آپ شاید دیکھ اور سن رہے ہیں کیونکہ ساتوں آسمان، رات دن گردش میں ہیں اسلئے کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن ا س بار سورج گرہن کچھ زیادہ ہی غضب ناک لگ رہا ہے۔ خدا خیر کرے ،البتہ وہ لوگ جو دن میں تارے دیکھیں گے (اور زہرہ اور مشتری کے روشن ہو جانے کی خاص طورپر نوید ہے ) ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اسے انسانوں کی یکجہتی کا ایک اظہار سمجھیں۔

تازہ ترین