• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ وفاقی حکومت کی آئینی مدت آئندہ سال پانچ جون کو پوری ہوگی جس کے بعد 90 دن کے اندر ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے نئے عام انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جانا آئینی تقاضا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک ہونے والے تقریباً سارے ہی انتخابات دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات سے آلودہ رہے ہیں جبکہ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے بغیر انتخابی نتائج میں رائے دہندگان کی حقیقی مرضی کا اظہار ناممکن ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں تمام جماعتوں کی طرف سے بے قاعدگیوں کی شکایات کی بناء پر پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر طے کیا تھا کہ انتخابی طریق کار میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو انتخابی نتائج میں عوام کی حقیقی مرضی کے اظہار کویقینی بناسکیں۔اس مقصد کے لئے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تاہم ملک میں مسلسل جاری سیاسی خلفشار کے باعث اس کام میں تاخیر ہوئی اور اس حوالے سے مسودہ قانون حال ہی میں قومی اسمبلی میں بحث کے لئے پیش کیا جاسکا جس پر گزشتہ روز متعدد ارکان کی جانب سے کئی اعتراضات سامنے آئے۔انتخابی اصلاحات بل2017کا نام پانے والے اس مسودہ قانون پر پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے ارکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس میں مزید ترامیم تجویز کی ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ بل میں الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافے سمیت کئی اچھی باتیں ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ بل کی تیاری میں تمام پارٹیوں کی جانب سے سخت محنت کے باوجود آئندہ انتخابات میں بایو میٹرک سسٹم اور الیکٹرونک ووٹنگ کے نظام کا استعمال ہوتا نظر نہیں آتا۔انہوں نے انتخابی اخراجات کے لئے چالیس لاکھ روپے کی حد میں اضافے کا مطالبہ بھی کیا کیونکہ ان کے بقول دیہی علاقوں میں ووٹرز اپنے طور پر پولنگ بوتھ تک نہیں آسکتے اور اس کا انتظام امیدوار ہی کو کرنا پڑتا ہے جس پر بھاری اخراجات ہوتے ہیں جبکہ زیر غور مسودہ قانون میں امیدوار کی جانب سے رائے دہندگان کو ٹرانسپورٹ کی سہولت کی فراہمی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔نوید قمر کے بقول یہ پابندی عملی صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتی لہٰذا اسے عائد نہیں کیا جانا چاہیے ورنہ آئندہ انتخابی نتائج اسی بنیاد پر چیلنج کیے جائیں گے۔ جہاںتک انتخابی اخراجات کے لئے چالیس لاکھ کی حد کا معاملہ ہے تو فی الحقیقت ضرورت تواس بات کی ہے کہ اس ملک میں جہاں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی بھاری اکثریت ہے، انتخابی عمل کو اتنا ارزاں اور آسان بنایا جائے کہ یہ دولت مندوں کا کھیل نہ بنارہے بلکہ عام آدمی بھی اس میں امیدوار کی حیثیت سے شریک ہوسکے۔دیہی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کا انتظام حکومت کی جانب سے کرکے امیدواروں کے انتخابی اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں۔ الیکٹرونک ووٹنگ سسٹم کا اہتمام شاید آئندہ انتخابات میں آسان نہ ہو لیکن ووٹر کی شناخت کے لئے بایو میٹرک مشینوں کی فراہمی مشکل نظر نہیں آتی جو ملک بھر میں موبائل فون کمپنیوں کے ہزاروں ریٹیلرز کے پاس موجود ہوتی ہیںاور مناسب قیمت میں دستیاب ہیں۔ بل پر بحث کے دوران بیرون ملک پاکستانیوں کوووٹ کا حق دینے کا مطالبہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان کی جانب سے کیا گیا جس پر غور کرتے ہوئے اس امر کو ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے کہ دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی اصل وابستگی بالعموم ان ملکوں سے ہوتی ہے جہاں وہ مستقل آباد ہونے کا فیصلہ کرچکے ہوتے تاہم پاکستان کے جو شہری پاکستانی ہی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور عارضی طور پر روزگار وغیرہ کی بناء پر بیرون ملک مقیم ہیں انہیں پاکستان میں ووٹ کا حق دینا یقیناً ایک اچھا فیصلہ ہوگا۔ بہرحال انتخابی اصلاحات کے بل کو جلد از جلد حتمی شکل میں منظور کیا جانا ضروری ہے ورنہ الیکشن کمیشن سابقہ قوانین کے تحت ہی انتخابات کرانے پر مجبور ہوگا اور ایسا ہوا تو آئندہ انتخابی نتائج بھی دھاندلیوں کی شکایات کی بناء پر مشتبہ رہیں گے۔

تازہ ترین