• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے حالات ان دنوں ناقابل تصور حد تک خراب ہیں۔ طالبان کی مزاحمت پہلے بھی موجود تھی لیکن تب طالبان کا کوئی نہ کوئی والی وارث معلوم تھا ۔ اب وہ ایران ، روس اور قطر سمیت نصف درجن ممالک کی پراکسی بنتے جارہے ہیں ۔ پہلے صرف طالبان افغان حکومت سے لڑرہے تھے لیکن اب داعش بھی میدان میں آگئی ہے ۔ داعش کا ایک تو طریقہ اتنا بھیانک ہے کہ طالبان کو بخشوادیتا ہے ۔ دوسرا داعش پر نہ پاکستان کا اثر ہے ، نہ ایران کا اور نہ کسی اور ملک پر دبائو ڈال کر اس پر دبائو ڈالا جاسکتا ہے ۔ طالبان کی مزاحمت 2003سے زور پکڑنے لگی تھی لیکن حامد کرزئی کے دور میں سیاسی طور پر افغانستان استحکام کی طرف جارہا تھا ۔ گزشتہ سولہ سال میں یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ افغانستان کے سیاسی ڈھانچے کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ حامد کرزئی کے مقابلے میں ڈاکٹر اشرف غنی کی گرفت بہت کمزور ہے ۔ قومی اسمبلی(اولسی جرگہ) مدت پوری کرچکی ہے لیکن نئے انتخابات نہیں کرائے جاسکتے ہیں۔ صدر اشرف غنی اور ان کے نائب صدر رشید دوستم کے اختلافات اتنے شدید ہوگئے ہیں کہ ثانی الذکر ترکی بھاگ گئے ہیں ۔اسی طرح صدر اور چیف ایگزیکٹو مجبوراً ایک دوسرے کو برداشت کررہے ہیں ۔ عرصہ ہواوزیرخارجہ کی اپنی صدر سے بات چیت بند ہے ۔ توقع کی جارہی تھی کہ گلبدین حکمتیار کی کابل آمد سیاسی استحکام کا موجب بنے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا بلکہ الٹا سیاسی انتشار یوں بڑھ گیا کہ مقابلے میں شمالی افغانستان کے ازبک، ہزارہ اور تاجک لیڈروںنے اتحاد بنا دیا۔ مشرقی افغانستان میں کمانڈر حضرت علی ، ظاہر قدیر اور میرویس یاسینی وغیرہ نے الگ اتحاد تشکیل دے دیا۔ اسی طرح جنوبی افغانستان میں وہاں کے کمانڈروں کا الگ اتحاد بن گیا ہے ۔ گویا سیاسی حوالوں سے افغانستان اس طرف گامزن ہونے لگا ہے کہ جس طرف طالبان کے دور سے پہلے گامزن تھا۔ امریکی موجودہ سیٹ اپ سے بے حد مایوس ہیں لیکن ان کو نہ تو نظام کا متبادل مل رہا ہے اور نہ ڈاکٹر اشرف غنی کا ۔ ان حالات میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ ساوتھ ایشیاکی پالیسی ریویو کے ضمن میں گزشتہ کئی ماہ سے افغانستان کے لئے بھی نئی پالیسی وضع کرنے میں مگن ہے جس کا اعلان اسی ہفتے ہونا تھا لیکن صدر ٹرمپ کو بریفنگ کے بعد اس کا اعلان سردست ملتوی کردیا گیا ۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ اور اس کے اتحادی کتنے پریشان اور سرگرداںہیں ۔
امریکی افغانستان کے مستقبل کے بارے میں جن آپشنز پر غور کررہے ہیں ا ن میں سرفہرست افغانستان میں موجود فوج میں چند ہزار کا اضافہ ہے ۔ دوسرا آپشن مکمل انخلااور افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑنے کا ہے ۔ تیسرا آپشن اسے بلیک واٹر کے ذریعے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے سپرد کرنے کا ہے اور آخری آپشن پہلے اور تیسرے آپشنز کے ملغوبے کا ہے ۔ افغان پالیسی کے اعلان میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اداروں کا محاسبہ شروع کردیا ہے ۔ وہ پنٹاگون ، سی آئی اے اورا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے افغانستان میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کئے ، کئی ہزار فوجی مروائے اور لاکھوں فوجیوں کو وہاں تعینات رکھا تو اس کے جواب میں کیا حاصل کیا۔اب ظاہر ہے وہ اپنی ناکامیوں اور حماقتوں کا اعتراف تو نہیں کرسکتے تو ان سب کی طرف سے یہ جواب مل رہا ہے کہ انہوں نے تو فلاں فلاں کارنامے سرانجام دئیے لیکن پاکستان اور بالخصوص پاکستانی فوج کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔ المیہ یہ ہے کہ صرف امریکی ادارے اپنے صدر کو یہ پٹی نہیں پڑھارہے ہیں بلکہ افغانستان کے سابق حکمران ہوں یا موجودہ ، ڈونلڈٹرمپ جس سے بھی بات کرتے ہیں ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ پاکستان کی وجہ سے امریکہ اور افغان حکومتیں امن قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ یہی فیڈ بیک ان کو انڈیا اور نیٹو کے اتحادیوں کی طرف سے بھی ملتا ہے ۔دوسری طرف یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ امریکہ میں پالیسی ریویو کے موقع پر وہاں پاکستان کا کیس ان کے سامنے کسی نے پیش نہیں کیا ۔ ہم داخلی سیاسی جھگڑوں میں مصروف رہے ۔ وزیراعظم یا آرمی چیف تو کیا اس عرصہ میں ہمارے وزیرخارجہ بھی لابنگ کے لئے امریکہ نہیں جاسکے ۔ اب جب سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا تو امریکی صدر ٹرمپ کو اس سوال کا سامنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟۔ ایک رائے یہ تھی کہ پاکستان کو اعتماد میں لے کر اس کی مراعات بڑھادی جائیںاور دوسری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ سختی کی جائے ۔چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کی روح میں پاکستان کو سبق سکھانے کا عنصر ضرور شامل ہوگا۔ سختی کا پہلا عنصر یقینا یہی ہوگا کہ پاکستانی فوج کو بلیک میل کیا جائے ، اس پر اندرونی اور بیرونی دبائو بڑھایا جائے اور اس کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کیا جائے ۔امریکیوں کے نزدیک آزمودہ طریقہ پاکستان میں مارشل لاکے نفاذ کا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ جنرل ایوب خان ہوں، جنرل ضیاء الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف جب وہ براہ راست اقتدار میں نہیں ہوتے تو مزاحمت کرتے ہیں اور جب خود سیاست میں ملوث ہوکر مقتدر بن جاتے ہیں تو پھر آسانی سے بلیک میل ہوتے اور ہر حکم بسروچشم بجا لاتے ہیں ۔ اس لئے میرا گمان ہے کہ اس وقت اگر کوئی ملک پاکستان میں مارشل لاکے نفاذ کا سب سے زیادہ متمنی ہے تو وہ امریکہ ہے اور اگر کوئی ملک سب سے زیادہ یہاں سیاسی استحکام کا خواہشمند ہے تو وہ چین ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا میں جمہوریت کا چیمپئن بنا پھرتا ہے اور چین کے اندر کوئی مثالی جمہوریت نہیں ہے ۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاںا سٹرٹیجک محاذ پر اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ جوہری تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ ستر سالہ تاریخ میں پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت نے پہلی مرتبہ اپنا دفاعی اور تزویراتی رخ چین اور روس کی طرف موڑ دیا ہے ۔
دوسری طرف ہندوستان اس نئی صف بندی میں امریکہ کا نمبرون اتحادی بنتا جارہا ہے ۔ ہندوستان کو یقین ہے کہ سی پیک کی فعالیت اور پاکستان اور چین کے مطلوبہ اسٹرٹیجک اور دفاعی پارٹنر شپ کے حصول کے بعد وہ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ہندوستان سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ حساب برابر کرنے کا یہی اور آخری موقع ہے ۔ چنانچہ اس کے پاس ایک آپشن جنگ کا ہوسکتا تھا لیکن مکمل جنگ توشاید اب آپشن ہی نہیں رہا ۔ اس لئے وہ بھی پاکستان کے اندر اندرونی اورسیاسی انتشار پھیلانے کی کوشش کررہا ہے اور اسی تناظر میں ہندوستان بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہوکر بھی پاکستان میں مارشل لاکے نفاذ کا متمنی ہے ۔ ہندوستان بھی امریکہ کی طرح پاکستان کے بارے میں یہی تجربہ کرچکا ہے کہ ڈکٹیٹرشپ کے ایام میں وہ پاکستانی قیادت کو آسانی کے ساتھ بلیک میل کرسکتا ہے ۔ ان کے سامنے جنرل ضیاء الحق کی مثال ہے کہ کس طرح وہ سیاچن کے بعض علاقوں پر ہندوستانی قبضے پر خاموش رہا اور کرکٹ میچ کے بہانے جاکر مذاکرات کی بھیک مانگتا رہا ۔ ہندوستان دیکھ چکا ہے کہ کس طرح وہ جنرل مشرف جو نوازشریف کی حکومت میں کارگل مہم پر چل پڑا تھا ، خود اقتدار میں آنے کے بعد واجپائی سے مذاکرات کی بھیک مانگتا رہا اور پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایسے فارمولے پیش کرتا رہا کہ جن کا کوئی منتخب وزیراعظم تصور بھی نہیں کرسکتا ۔
جب ہم جیسے طالب علم میاں نوازشریف کو صبروتحمل کا مشورہ دیتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ان کے موقف میں سرے سے وزن نہیں بلکہ تناظر یہی ہوتا ہے کہ تصادم کی طرف جاکر وہ نادانستہ پاکستان دشمن قوتوں کے لئے استعمال ہوجائیں گے ۔ اسی طرح جب ہم دوسرے فریق کو سیاست سے باز رہنے اور سیاستدانوں کو رعایت دینے کی استدعا کرتے ہیںتو مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ہم میاں نوازشریف یا سیاستدانوں کو فرشتے سمجھتے ہیں بلکہ تناظر یہی ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان دشمن طاقتوں کا اصل نشانہ پاکستان کی سلامتی کے ادارے ہیں اور سیاست میں ملوث کرکے وہ ان کو متنازع کرنےاور ان کی استعداد کو متاثر کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم اگر لڑنے کا مشورہ دینے والے نوازشریف کے خوشامدی مشیروں اور میڈیا میں موجود نام نہاد عقابوں پر تبرا بھیجتے ہیںتو مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لوگ دوست کی شکل میں نوازشریف اور جمہوریت کے ساتھ دشمنی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ اسی طرح دوسری طرف موجود وہ افراد، سیاستدان اور میڈیا پرسنز سلامتی کے اداروں کو ورغلاتے اور سیاست میں ملوث کرنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت چاپلوس بن کر سلامتی کے اداروں کے ساتھ دشمنی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ اس لئے سب فریقوں سے التجا ہے کہ وہ اپنی اپنی صفوں میں موجود خوشامدیوں اور چغل خوروں سے جان چھڑائیں اور ہر فریق جوش کی بجائے ہوش سے کام لیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہر فریق اپنی غلطیوں پر تو دھیان نہیں دیتا لیکن صرف حریف فریق کی غلطیوں کا ذکر کرتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر ہر کوئی اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر ایک نئے سفر کا آغاز کرے تو حالیہ بحران شر کی بجائے خیر کا بھی موجب بن سکتا ہے لیکن اگر صرف دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر وہی کچھ ہوگا جس میں کسی ادارے اور کسی فریق کیلئے بھی خیر نہیں۔

تازہ ترین