• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تدبر اور غور و فکر انسان کا سب سے بڑا اثاثہ اور مومن کی فراست کا حصہ ہے۔ایک لحاظ سے تدبر اور غور فکر مسلمان کی میراث ہے۔ قرآن حکیم بار بار نظام کائنات پر تدبر اور غور و فکر کی تلقین کرتا ہے کیونکہ اس سے جابجا آپ کو خالق کائنات کی نشانیاں، تخلیق کائنات کے رموز اور باطن کی روشنی ملتی ہے۔ میرے نزدیک تدبرہی انسان کی سب سے بڑی شان اور پہچان ہے اور یہی خوبی اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ قرآن حکیم میں اسے اشیاء کا علم یا وہ علم کہا گیا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پیدائش آدم کے وقت انسان کو عطا فرمایا اور پھر فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا۔ مغرور اورمتکبر شیطان کو اپنے علم پر گھمنڈ تھا، اس نے انکار کیا اور انسان کی گمراہی کی اجازت اور مہلت مانگ لی۔ مقصد یہ کہ تدبر، علم اور غور و فکر انسانی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے۔علم محض کتابیں پڑھنے سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم کے سوتے تدبر سے پھوٹتے ہیں۔ بے شک دنیاوی علم، کتابی و امتحانی معلومات اور زرق کمانے کے لئے جو علم درکار ہے وہ کتابوں میں ہی ملتا ہے لیکن اصل علم جو باطن کو روشن کرتا، روح کو متاثر کرتا، خیالات کی تشکیل کرتا، نظریات کو پروان چڑھاتا، زندگی کے راز افشا کرتا، کائنات کی گتھیوں کو سلجھاتا ہے وہ علم تدبر کی دین ہوتا ہے، ورنہ علامہ اقبال جیسا مفکر یہ کہنے پر آمادہ نہ ہوتا کہ ؎اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی، مطلب یہ کہ سراغِ زندگی کتابوں سے نہیں بلکہ اپنے من میں ڈوبنے سے ملتا ہے۔اپنے من میں ڈوبنا کیا ہے؟ اپنے من میں ڈوبنا تدبر، غور و فکر اور نگاہ کی گہرائی ہے۔ ہمارے صوفی شعراء میں سے ایک بڑی تعداد دنیاوی معیار کے مطابق پڑھی لکھی نہیں تھی۔ بہت سے اولیاء کرام نے مدرسے یا ا سکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود ان کا کلام اس طرح زندہ ہے کہ ہر مسلمان کی روح کو گرماتا، ذہن کو جھنجوڑتا اور غور و فکر کی گہرائیوں میں غرق کردیتا ہے۔ ان کی شاعری محض عشق الٰہی، عشق رسولﷺ کی شاعری ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری زندگی کی شاعری بھی ہے، انسانی رشتوں، معاشرے اور معاشرتی اقدار،انسانی رویوں، بے ثباتی اورسچی قدروں کی ترویج کی بھی شاعری ہے۔ میرے نزدیک یہ گہرائی، وسعت نظر، فلسفیانہ رنگ،فقر کا غلبہ اور اظہار پہ قدرت، اس علم کی عطا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ تدبر کے نتیجے کے طور پر عطا فرماتے ہیں۔بشرطیکہ جذبہ صادق ہو، باطن دنیاوی حرص و ہوس اور آلائشوں سے پاک ہو اور واحد کامل تمنا رضائے الٰہی کی ہو۔ جب اللہ پاک باطن کو روشن کرتے ہیں تو آنکھوں سے پردے ہٹ جاتے ہیں اور انسان پر قدرت کے وہ راز منکشف ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو کتابی و دنیاوی علوم سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ یہی سچا علم ہے جو میرے رب کی عطا ہے اور یاد رکھیں کہ جب اس عطا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس سے قبل تدبر کی بنیاد رکھی جاتی ہے،تدبر کو زندگی کی بھٹی میں پکایا جاتا ہے اور اسے پختگی عطا کی جاتی ہے کیونکہ جب تک حصار کا قلعہ مضبوط نہ ہو انسان حقیقی علم کی امانت سنبھال کر نہیں رکھ سکتا۔ پھر وہ منزل آتی ہے جب تدبر کے مضبوط قلعے میں سچے علم کو قطرہ قطرہ ڈالا اور اتارا جاتا ہے ،کیونکہ انسانی ظرف اسے ایک دم برداشت کرنے اور جذب کرنے کا نہ اہل ہے اور نہ ہی متحمل ہوتا ہے۔ نبیوں، پیغمبروں کی بات اور ہے ، مقام ا ور ہے اور ان کی ساخت ہی روز اول سے منفرد اور اعلیٰ ترین ہوتی ہے۔ وہ وحی کا بوجھ بھی برداشت کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں ورنہ تو وحی کا بوجھ مضبوط سے مضبوط پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتا لیکن ہم جن اولیاء کرام، فقراء اور صاحبان باطن کا ذکر کرتے ہیں جن کا کلام علم کا سمندر ہوتا ہے،تدبر کا روشن مینار ہوتا ہے اور جن کا کلام صدیوں سے پڑھ کر ہم جذب کی کیفیت کا لطف ا ٹھارہے ہیں انہیں اس منزل پر پہنچنے کے لئے طویل روحانی سفر طے کرنا پڑا تھا اور تربیت کے مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔بعثت سے پہلے ہمارے نبی کریم ﷺ کو تنہائی عزیز تھی۔ غار حرا تدبر کی زندہ علامت ہے۔ ہمارے اولیاء کرام اور قرب الٰہی سے فیض یاب صاحبانِ باطن بھی ایک عرصے تک تنہائی کو ترجیح دیتے اور دنیا میں رہ کر دنیا سے کٹ کر رہتے ہیں۔ بھلا کیوں؟ اس لئے کہ تنہائی تدبر کا چشمہ ہے، اگر اپنے رب کی جانب مکمل توجہ دے کر تنہائی میں تدبر کیا جائے تو خالق حقیقی کے انعامات قلب پر اترنا شروع ہوجاتے ہیں۔ قلبی و روحانی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے، شخصیت سنورنا اور سوچ نکھرنا شروع ہوجاتی ہے۔ مرشد کامل کی توجہ یا نگاہ یا دعا ساتھ ہو تو یہ منازل جلدی طے ہوجاتی ہیں ورنہ کسبی علم کے حصول میں طویل آزمائش سے گزرناپڑتا ہے۔مختصر یہ کہ تدبر حکمت کی پہلی تربیت گاہ، اکادمی ا ور غار حرا ہے۔ تدبر اور غور و فکر انسان کا قیمتی ترین اثاثہ اور کامیابی کا توشہ ہیں۔ تدبر سے محروم انسان دنیاوی ڈگریوں کے ڈھیروں کے باوجود سچے علم سے محروم رہتا ہے لیکن جب تدبر کی منازل طے کرتے ہوئے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ انسان کے قلب کو علم سے منور کرتے ہیں تو اس کے سامنے دنیاوی ڈگریاں ماند پڑجاتی ہیں۔

تازہ ترین