• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم نے پاکستان کا 70واںجشن آزادی بہت زور وشور کے ساتھ منایا اور اربوں روپے جھنڈیوں اور ریلیوں میں خرچ کر ڈالے۔ جشن آزادی منانے پر اعتراض نہیں ہے یہ قوم کی خوشی کا دن ہے اگر انہی روپوں سے ہم ملک بھر میں اس دن نئے پودے لگاتے تو اگلے چند سالوں میں یہ درخت بن کر خوشحالی لاتے ،خوبصورتی میں اضافہ کرتے اور سایہ بنتے ۔پھر یہ ایک مثبت روایت بنتی اور اگلے سال اور جوش وجذبے کے ساتھ ہم اس رسم کو آگے بڑھاتے اور یہ ہمارا سرمایہ محفوظ بھی رہتا اور آگے بھی بڑھتا۔ہم نے یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔افسوس ہمارےحکمران طبقے نے اس کو 70سالوں سے لوٹ لوٹ کر کنگال کرکے مقروض بنا دیا ہے اور عوام ہر 5سال کے بعد ان کو دوبارہ ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرکے پھر پچھتاتے ہیں ۔اگر چہ کم وبیش ایسا ہی کاروبا رلوٹ مار کا ہمارے پڑوسی ملک میں بھی سیاست دان بھارت کے عوام کے ساتھ کررہے ہیں مگر وہاں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔جس کی وجہ سے کرپشن کی سطح ہم سے بہت کم ہے ۔اس کے برعکس وہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے عوام پڑھے لکھے ہوچکے ہیں وہ اب ان سیاستدانوں کو اچھی طرح جان چکے ہیں۔ سڑکوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اسی وجہ سے بھارت ہم سے ایک دن بعد آزاد ہونے کے باوجود بہت آگے جاچکا ہے۔بھارت کو پروان چڑھانے میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اُن کی ٹیم نے بنیادی کردار صرف جاگیرداری کو ختم کرکے انجام دیا تھا ۔جس کا پھل اس کے عوام 70سال سے کھارہے ہیں۔ترقی میں وہ دنیا کے اب 20ترقی پذیر ممالک G.21گروپ میں شامل ہوچکے ہیں مگر افسوس ہمارے ملک سے جاگیر داری کو ختم کرنے کے بجائے اس کو مضبوط بنانے کا گھنائونا کردار آج بھی جاری ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے 70فیصد یعنی 2تہائی عوام آج بھی تعلیم سے محروم ہیں ۔ اور اکثریت 70سال گزرنے کے بعد بھی گائوں، دیہات میں رہتی ہے اور یہی جاگیردار ان سے اپنے مرضی سے ووٹ ڈلواکر اپنی بالادستی کو ثابت کرکے اس قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ۔اور جس نے بھی ان جاگیرداروںکو ختم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مل کر اسے ناکام بناکر نظام کو نہیں بدلنے دیا ۔یہی عوام کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔اور ان کو جاہل رکھ کر ان پر حکومت کررہے ہیں۔ بھارت میں صوبوں میں اضافے کی وجہ سے بھی ترقی کی رفتار بہت تیز رہی ہے۔ بھارت آزاد ہواتو 13صوبے تھے 70سال میں 36صوبے جن میں 7یونین (Union Territories) شامل ہیں ۔گویا 29بھر پور صوبوں کا درجہ ہیں اور کچھ کم حقوق کی 7یونین ہیں۔کیونکہ ریاستیں ختم اور جاگیرداری نظام ختم ہوچکا تھا لہٰذا عوام میں شعور پیدا ہواتو نئے نئے صوبوں کا مطالبہ رہا اور ہر 2سال بعد نئے صوبوں کا رجحان بڑھا تو آج 13صوبے بڑھ کر 36صوبے بن چکے ہیں ۔مگر ہمارے ان جاگیرداروں، نوابوں، زمینداروں نے نئے صوبے نہیں بننے دیئے ۔کراچی جو پاکستان کا دارالحکومت کے ساتھ ساتھ وفاق کے زیر انتظام بھی تھا پہلے دارالحکومت اسلام آباد بناکر ختم کیا۔ پھر وفاق سے ہٹاکر کراچی کو سندھ میں ضم کرکے یہ درجہ بھی چھین لیا اسی طرح خیر پور اور بہاولپور بھی الگ الگ صوبے تھے ان کو بھی بالترتیب سندھ اور پنجاب میں ضم کرکے ان کے عوام کو بھی محکوم بنا ڈالا۔ وہ آج تک سرائیکی صوبے کاخواب دیکھ رہے ہیں۔ راقم نے کئی مرتبہ حکمرانوں اور عوام کو نئے صوبوں کی افادیت سے آگاہ کیا ۔اس پر ایک مفصل تجزیہ اور دنیا کے 200ممالک کی مثالوں پر مشتمل ایک کتاب 5سال قبل "صوبے کیوں ضروری ہیں"بھی لکھی ۔جس طرح ماضی میں کئی کمیشن بھی بنے انہوں نے بھی اپنی اپنی رپورٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں نئے صوبے اتنی بڑی 20کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود نہیں بنائے گئے ۔جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار عوام کو ان کے بنیادی حقوق ،سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اور جب تک یہ جاگیردارانہ نظام قائم ہے یہ جاگیردار حضرات اپنے اپنے صوبوں پر قابض رہیںگے اور اپنی من مانیاں کرکے اُن کے حقوق دباتے رہیں گے ۔اور عوام اُن کے غلام ہی رہیں گے، نہ وہ تعلیم حاصل کرنے دینگے، نہ ان کو بنیادی حقوق دیں گے تا کہ وہ ان کے مزارع ہی رہیں ۔یہی جاگیردار ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر 70سال سے قابض ہیں۔ اور اپنے مطلب کے قوانین بنا بناکر خود امیر سے امیر تر اور عوام کوغریب سے غریب تر بناکر اپنا الو سیدھا کررہے ہیں ۔یاد رکھیں جب تک عوام تک تعلیم کے دروازے نہیں کھولیں گے ان میں شعور پیدا نہیں ہوگا اور جب شعور نہیں ہوگا تو وہ اپنے حقوق کی حفاظت کیسے کریں گے ؟تو ان جاگیرداروں سے نجات بھی نہیں ملے گی یہی ناکامی کی وجوہات ہیں ۔
تیسرا اہم کام بھارتی سیاستدانوں نے ٹیکنیکل کاموں میں دخل اندازی نہیں کی اور شروع ہی سے بڑے چھوٹے ڈیم بناتے گئے تاکہ کشمیر کے پانی کے غلام نہ رہیں۔مگر اس کے برعکس ہمارے سیاستدان ڈیم نہ بنانے کی سیاست کرتے رہے ۔اور بڑے ڈیم خاص کر کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیا ۔اور آج ہم بجلی اور پانی کا رونا رورہے ہیں ۔پھر بھی صوبائی عصبیت کا شکار ہیں۔ہرسال بھارت اس سے فائدہ اٹھاکر اپنا اضافی پانی ہمارے خشک دریائوں میں چھوڑ کر سیلاب کا رُخ ہماری طرف موڑ دیتا ہے جب تک عوام اس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے ہم خشک سالی اور سیلابی تباہی کا شکار رہیں گے ۔خدارا کم از کم ان 3مسئلوں کو حل کرکے عوام کو سکون کا سانس لینے دیں ۔

تازہ ترین