• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے حلقہ این اے 120 میں انتخابی معرکہ قریب تر ہے جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نوازہونگی جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد میدان میں ہیں ۔2013ء میں اس حلقہ سے نواز شریف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دی تھی ، این اے 120 حلقہ 95 کے بیشتر علاقوں پر مشتمل تھا لیکن اب اس میں حلقہ 96 کے بہت سے علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ حلقہ اب اولڈ سٹی سے ملحقہ علاقوں بند روڈ ، ساندہ ، بلال گنج ، کرشن نگر ، مال روڈ ، انارکلی ، مزنگ ، بیڈن روڈ ، ہال روڈ اور کوپر روڈ جیسے علاقوں پر محیط ہے ۔ یہاں پر بسنے والے بیشتر لوگ بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کے آباد ہوئے ۔ 85 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جن لوگوں نے کامیابی حاصل کی وہ جونیجو حکومت کا حصہ بنے ۔ 1988ء کے جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف نے یہاں سے کامیابی حاصل کی جس کا تسلسل 2013ء تک برقرار رہا ، شریف خاندان نے یہاں سے مسلسل 8 مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ دورِ آمریت کے دوران 2002ء میں جو چند ایک سیٹیں جیتی گئیں ان میں بھی مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک نے اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔ اتفاق سے میرا تعلق بھی اسی حلقہ سے ہے اور راوی روڈ کے جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہ 1988ء کے انتخابات میں این اے 96 کہلاتا تھا۔ 88ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر نے یہاں سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مد مقابل جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ سلمان بٹ تھے ، 90ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے پہلی مرتبہ اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر کو شکست دی۔ میاں شہباز شریف نے دوسری مرتبہ 93ء میں اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لے کر جہانگیر بدر کو شکست دی۔93ء میں میاں شہباز شریف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخاب لڑا اور دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی جس پر جاوید ہاشمی نے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ 97ء میں ایک مرتبہ پھر میاں شہباز شریف اور جہانگیر بدر کے درمیان قومی اسمبلی کی نشست کے لئے مقابلہ ہوا اور اس بار بھی شہباز شریف نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ این اے 120 ماضی میں این اے 95 اور این اے 96 کے علاقوں میں تقسیم تھا اور اسے آج بھی مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں این اے 120 کو قومی اسمبلی کے ایک نئے حلقے کے طور پر متعارف کروایا گیا ، تب سے لے کر 2013ء تک مسلم لیگ (ن) یہاں سے واضح کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ 2002ء میں پرویز ملک بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 2008ء میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بلا ل یاسین نے اپنے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروا دیں تھیں جبکہ 2013ء میں اس حلقہ سے میاں نواز شریف نے اپنی مخالف امیدوار پر 40 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقہ میں 88ء سے لے کر 2013ء کے انتخابات تک (ن) لیگ نے اس علاقہ پر خصوصی توجہ مرکوز کئے رکھی۔ حلقہ کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا گیا ، ترقیاتی کام کروائے گئے ، جبکہ بہت سے ترقیاتی منصوبے اب بھی جاری ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں جب ٹیلی فون ، گیس اور بجلی کے کنکشنوں کیلئے لوگوں کو سالوں انتظار کرنا پڑتا تھا اس دور میں جب کوئی درخواست جمع کرواتا تو میاں شہباز شریف کے سیکرٹری جاوید اشرف لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر خود ڈیمانڈ نوٹس دینے جاتے اس حوالہ سے جاوید اشرف کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جاوید اشرف تحریک نجات کے دوران مال روڈ پر نامعلوم افراد کی گولی لگنے سے شہید ہوگئے تھے۔
ہمارے کچھ تجزیہ نگار حقائق کے برعکس ستمبر 2017ء میں ہونے والے انتخابات کے حوالہ سے مختلف نوعیت کے تبصرے کر رہے ہیں غالباً وہ حلقہ این اے 120 کے مسائل اور تازہ ترین صورتحال سے ناواقف ہیں۔ کم و بیش تمام چینلز پر تجزیہ نگار برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ ضمنی الیکشن زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، بعض لوگ پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو مضبوط ترین امیدوار قرار دے رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ، ڈاکٹر یاسمین راشد نے 2013ء کا الیکشن ہارنے کے بعد کبھی یہاں کے مکینوں سے کسی قسم کا میل جول نہیں رکھا جبکہ پروپیگنڈہ یہ کیا جارہا ہے کہ وہ گزشتہ انتخابات میں اپنی شکست کے بعد یہاں کے رہائشیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ این اے 120 میں بلدیاتی انتخابات کا حصہ بننے والے پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق ایم پی اے آجاسم شریف جو 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے مگر 2013ء میں ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ وہ ان دنوں ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ اس حلقہ کی تمام یونین کونسلوں سے پی ٹی آئی کے سبھی امیدوار ہار گئے تھے۔ پرویز مشرف دور میں داتا گنج بخش ٹائون کے 2 مرتبہ ناظم رہنے والے طارق ثناء باجوہ جو اب پی ٹی آئی میں ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔2008ء کے عام انتخابات میں اس حلقہ کی صوبائی نشست پی پی 139 میں طارق ثناء باجوہ کے بھائی عارف ثناء باجوہ نے الیکشن لڑا اور وہ صرف 2000 کے قریب ووٹ حاصل کر پائے۔ تب طارق ثناء باجوہ ٹائون ناظم تھے لیکن وہ اپنے بھائی کو کامیابی نہ دلا سکے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں طارق ثناء باجوہ نے پہلے خود یو سی چیئرمین کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا لیکن حالات کو بھانپتے ہوئے بلدیاتی الیکشن سے بھاگ نکلے جبکہ انہی بلدیاتی انتخابات میں ان کا تجویز کردہ امیدوار حافظ زبیر بھی بلدیاتی الیکشن میں بری طرح ہار گیا ۔ ـمظہر اقبال بٹ (بھلی بٹ) 2013ء کے انتخابات میں پی پی 139 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن انہیں (ن) لیگ کے امیدوار بلال یاسین کے ہاتھوں شکست ہوئی ، چوہدری اصغر گجر 2008ء میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے لیکن 2008ء میں پیپلز پارٹی اور 2013ء میں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے مسلسل دو بار شکست ہوئی۔ یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے ، وزیراعظم میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد بھی مجھے اس حلقہ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ، میری رائے میں مسلم لیگ (ن) کو یہاں سے اب بھی شکست نہیں دی جاسکتی بلکہ میرا خیال ہے کہ ستمبر 2017ء کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نواز ووٹوں کے بھاری بھرکم مارجن کے ساتھ کامیابی حاصل کریں گی ، کچھ سیاسی پنڈتوں کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ کلثوم نواز کو اس حلقہ میں الیکشن کے لئے اس لئے اتارا جارہا ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) کی جیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

تازہ ترین