• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ کے لئے توبہ جو اپنی قومی ائر لائن کو سفر کرنے کے لئے منتخب کیا ،ہوا کیا کچھ پتہ تو چلے؟ْ ۔ ہونا کیا تھا بھائی اچانک ایمرجنسی کے باعث فلائٹ کی تاریخ تبدیل کروانے کی غلطی سرزد ہوگئی اور سونے پر سہاگہ فلائٹ میں پانچ دن باقی تھے۔پھر کیا ہوا ، حیرت بھرا پھر وہی سوال۔ہونا کیا تھا اپنی قومی ائر لائن کے ریزرویشن عملے نے ایسا رویہ دکھایا گویا ہم نے کوئی قرضہ لیا ہوا تھا جو واپس کرنے کے بجائے مزید قرضہ مانگ رہے ہوں۔وہی رٹے رٹائے جملے کہ ہم آپ کی خدمت کے لئے ہی بیٹھے ہیں لیکن کیا کریں آپ کی بکنگ فلاح کلاس سے ہوئی ہے اس کو اَپ گریڈ کروانا ہوگا اور مزید پیسے بھی دینے ہوں گے۔ ہم تو آپ کی خدمت کے لئے ہیں لیکن قواعد و ضوابط پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب کوئی تو انھیں سمجھائے کہ بھائی یہ قواعد و ضوابط لوگوں کی سہولت کے لئے بنائے گئے ہیں یا پھر ان کی پریشانیاں بڑھانے کے لئے۔کمال بات تو یہ ہے لندن کے لئے دئیے گئے ٹول فری نمبر جس پر کال کرنے کے کوئی پیسے نہیں لگتے لیکن اس سہولت میں بیٹھے عملے کو لندن اور یورپ کے برطانیہ کے سٹیشن منیجر کا نام پتہ ہی معلوم نہیں جیسے وہ کوئی دوسرے سیارے کی مخلوق ہو جو کسی گمنام جگہ سے اپنا کام سر انجام دے رہا ہے اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ ویب سائٹ پر دیئے گئے نمبروں میں سے کوئی بھی نمبر اپنا وجود نہیں رکھتا ، کریں تو کیا کریں۔یہ بات چیت ہماری ایک رشتے دار سے ہوئی جو سمر کی چھٹیوں میں اپنے بچوں سے ملنے برطانیہ آئے لیکن جس طرح قومی ائر لاین نے ان کی میزبانی کی، اس سے شدید دلبرداشتہ ہوئے اور ہمیں اپنی کہانی سنائی ۔ یہ کہانی کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ قومی ائر لائن کے ذریعے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے برطانیہ آنے والے عزیز و اقارب اور دوستوں بلکہ کام سے آنے والوں سب کی داستان ہے۔ دوسری تمام غیر ملکی ائر لائنز کے مقابلے میں دوگنا تگنہ کرایہ وصولنے والی ائرلائن کے عملے میں ہمدردی نام کی کوئی شے پنپتی ہی نہیں ۔ ریزرویشن عملے سے کرو تک کا سپاٹ سخت گیر رویہ یہ احساس دلاتا ہے کہ گویا وہ کسی غلام سے مخاطب ہو یا ہم نے یعنی مسافر نے مفت ٹکٹ لیا ہے اس لئے احسان کرنا لازمی ہے ۔اپنی مرضی سے فلائٹس لیٹ ہونا یا کرنا عام بات لیکن مسافر بچارہ فلائٹ کی تبدیلی کے سات دن کے سخت قانون کی وجہ سے انتہائی مجبوری میں بھی اپنی فلائٹ کو تبدیل کرنے کی گستاخی نہیں کرسکتا ۔ویسے بھی 350 بلین کے خسارے میں چلنے والی ائر لائن کی فلائٹس جو برطانیہ سے ہفتے میں صرف دو بار ہی اڑان کرتی ہیں اور جس کے ذیلی دفتر بھی ناپید ہو اور جو ہیں ان کو بھی بند کیا جارہا ہو اس سے کسی بھی تبدیلی کی کیا امید کی جائے گی اور اگر یہ تبدیلی پیک سیزن میں مطلوب ہو، جن کو عموما تعلیمی اداروں میں ہونے والی سمر ونٹر وکیشن سے مشروط کیا جاتا ہے اس میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔حالانکہ اس سیزن میں سفر کرنے والوں نے تو یہ بھی انکشافات کئے ہیں کہ اس بھرے ہوئے سیزن میں بھی چار چار خالی سیٹیں جن پر وہ سوتے ہوئے سفر کرتے ہیں اس بات کی غماض ہوتیں ہیں کہ ـفلائٹ فل کا ڈھکوسلہ صرف یہ دکھانے کے لئے ہے کہ ائر لائن مکمل منافع میں چل رہی ہے ہر کوئی اور خصوصا دیار وطن کا پاکستانی تو بس اپنی ہی ائر لائن کو ترجیح دیتا ہے جب کہ صورت حال بالکل برعکس ہے کس سے گلہ کریں کس سے شکایت ، کوئی ہے ہی نہیں شنوائی کے لئے ۔ عملے کو سٹیشن منیجر کی خبر نہیں ۔کوئی ویب سائٹ کار آمد نہیں۔ فون اٹھانے والا ناپید ،ملک کی واحد قومی کمرشل ائر لائن بس بد مست سفید ہاتھی کی طرح چلے جارہی ہے اور کوئی قابو کرنے والا نہیں ۔ پاکستانی عوام اس لئے اس کے کارکنوں کی اپنے ٹیکس سے تنخواہیں اداکرتے ہیں کہ یہ کروڑوں، اربوں کا نقصان کریں اور اتنا پریشان کہ مسافر ہمیشہ کے لئے اس ائر لائن کے سفر سے توبہ کرلیں، لو گ بھی اس کی حالت زار پر افسوس اور برا بھلا کہ کر اپنا راستہ بدتے ہوئے دوسری ائر لائنز سے ہی سفر کو ترجیح دینے لگے ہیں جن کے کرائے بھی قابل براشت اور لاجواب لوگ اور باکمال سروس کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیںجس کا یہ ائر لائن ہمیشہ سے دعویٰ کرتی آئی ہے۔

تازہ ترین