• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم کا پاکستان گلوخاور…سیمسن جاوید

قیام پاکستان کو 70 سال ہو چکے ہیں ۔بیشک پاکستان کا شمار ایٹمی طاقتوں میں کیا جاتا ہے اورپاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی دوڑ میں شامل ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترجیحات اورخوبیوں کو حکومت ِ وقت اور سیاست دان اپنانے کی بجائے باہمی چپقلش اور ملکی اداروں سے ٹکراؤ کے رجحان کو فروغ دے رہے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان گروہی ،لسانی ، موروثی اور ذاتی مفادات کی سیاست سے باہر نہیں نکل پایا۔مقولہ ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا ۔کل کا دوست آج کا دشمن ہو جائے اور دشمن دوست بن جائے،کچھ بھی ممکن ہے۔ سیاست دان کا پینترے بدلنا ، پارٹی سے وفا داریاں تبدیل کرنا عام بات ہے اور الزامات کی سیاست کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔گویا اخلاقیات کی تمام حدیں بھی پار کر لی جائیں تو بعید نہیں بلکہ یہ سیاست دانوں کی تعریف کے زمرے میں آتاہے۔ سیاست دان کے قول و فعل کے تضاد نے عوام کے مزاج کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی چپقلش اپنی جگہ، کارکن بھی آپس میں الجھنے سے گریزنہیں کرتے ۔ جہاں سیاسی جماعتوں کا مقصد صرف کرپشن کرنا اوراقتدار حاصل کرنا ہو،وہاں نہ ملک کی معشیت مستحکم ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کا مستقبل سنورتا ہے بلکہ غربت اور جرم کا بول بالا ہوتا ہے۔عدالت ، حکومت اور سیاست دانوں کے درمیان جب عدم اعتماد واضح نظر آئے اور دبے لفظوں میں انصاف ہنگاموں کی نظر ہو جائے اورایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائے تو وہاں انصاف کی توقع کس سے کی جا سکتی ہے۔جب قیامِ پاکستان سے مذہبی اقلیتوں کے تاریخی کردار کو مسلسل فراموش کیاجا رہا ہواوران کی وفاداری اور خدمات پر شک کرتے ہوئے آئے دن کوئی نہ کوئی نیاشوشا چھوڑ دیا جائے تو کیا اقلیتیں عدم تحفظ کا شکارنہیں ہوں گی۔ان حقائق کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ کئی ہندو اور مسیحی رہنماؤں نے قائداعظم کا ساتھ دیاتھا تبھی پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہواتھا۔ تقسیم کے وقت جن علاقوں میں ہندویا مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی یا وہ تعلیمی اور مالی طور پر مستحکم تھے تو انہوں نے اسی ملک میں رہنے کو ترجیح دی ۔مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادنے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنا مناسب نہ سمجھااور آج تک وہیں آباد ہیں۔اسی طرح پاکستان کے علاقے خصوصاً سندھ اور بلوچستان سے ہندو جو تعلیم یافتہ تھے، پیشے کے اعتبار سے تاجر اور وکیل تھے، وہ پاکستان میں ہی آباد رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بعد میں پاکستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور اب بھی ہندوئوں کی بڑی تعداد سندھ میں مقیم ہے جن کی وفاداری پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ملک کی سیاست سے لے کر وکالت ،میڈیکل اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح مسیحوں نے بھی قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھر پور حصہ لیاتھااورآج بھی پاکستان میں زندگی کے تمام شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔خاص کرصحت و تعلیم جیسے شعبوں میں جو کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر یہی اقلیت پاکستان میں سب سے زیادہ تعصب کا شکار ہے پھر بھی 11 اگست کو یوم اقلیت مناتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر کو یاد کرتے ہیں جن میں انہوں نے مستقبل کی نئی ریاست کی سمت طے کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا ، واضع رہے کہ ریاست کا کسی کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ہر کسی کو مذہبی آزادی ہوگی اور ریاست نہ تو کسی مذہب کو فروغ دے گی اور نہ ہی کسی کو دبائے گی۔ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ سیاسی اور قومیت کے اعتبار سے۔انہی اصولوں کوآئین اور نصاب میں اپنا کر ہم پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنا سکتے ہیں اور اس کا شمار ایک حقیقی جمہوری، فلاحی اور ترقی یافتہ ملکوں میں لا سکتے ہیں۔

تازہ ترین