• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ، مسلم لیگ پر خطرات کے گہرے بادل

اسلام آباد( طاہر خلیل) ایک بار پھر مسلم لیگ پر خطرات کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ کاالمیہ یہ ہے کہ پاکستان کی خالق اس سیاسی جماعت کو ہمیشہ اندر کی ریشہ دوانیوں نے کمزور اور بے اثر کیا ہے، بات بدل کر اگر یوں لکھ دیا جائے کہ یہ جماعت خود اپنے بوجھ تلے دب کر گھٹ جاتی ہے تو قطعاً مبالغہ آمیزی نہیں ہوگی اور ایسا اس لئے ہے کہ بانیان پاکستان کے دور ہی سے اس جماعت کا یہ خاصا رہا ہے کہ مشاورت اور عام کارکنوں کی رائے کو اہمیت دینے کی بجائے چند شخصیات کے درمیان ہی محدود رہتی ہے جب آزمائش کی گھڑی آتی ہے تو کارکنوں اور قیادت کے درمیان کاشگاف واضح ہوجاتا ہے، کارکن تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں، دور قیادت حالات کا رخ دیکھتے ہوئے گروہوں اور حروف تہجی کے تمام اعداد میں بٹ جاتی ہے۔

کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ کی کہانی قیوم لیگ اور پگاڑا لیگ کی داستان ، پھر ملک قاسم، خواجہ خیرالدین، یادش بخیر جونیجو لیگ، ن لیگ، ق لیگ اور اس کے بعد کوئی ڈیڑھ درجن بنتی مسلم لیگیں حقیقت یہ ہے کہ یہ شکست ور یخت نظریات کی بنیاد پرنہیں بلکہ اقتدار کی بندربانٹ میں ان دیکھے اشاروں پر بنتی بگڑتی رہی ہیں، آج پھر مسلم لیگ کی حکومت ایسی ہی ہیجان انگیز کیفیت سے دو چار ہے،محل سرا کی نوچیاں غلام گردشوں میں پلنے والی سازشوں کی کہانیاں سنارہی ہیں ، پہلے 40 ممبران کے ٹوٹنے کی بات کی جاتی تھی اب گنتی 124 تک جا پہنچی ہے،گنتیاں تو افواہوں میں ہیں لیکن افواہوں ہی کے دم پر پارلیمنٹ ہائوس کی راہداریوں میں فصلی بیٹرے اخبار نویسوں کو روک روک کر پوچھتے ہیں’’ میں منجھی کتھے ڈاہواں‘‘ ان حالات میں کچھ عناصر کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ چوہدری نثار علی خان کی صورت میں ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد ڈالیں جس میں بعد ازاں اعجاز الحق، شیخ رشید، حتیٰ کہ پرویز مشرف کوبھی ضم کروا دیا جائے، منصوبہ بظاہر دلربا اور کسی بھی اقتدار کی ہوس رکھنے والے کے لئے رسیلاہے لیکن چوہدری نثار علی خان کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس نے یہ پتہ دے دیا ہے کہ خطہ پوٹھوار کا بیٹا کسی قیمت پر نہیں بکے گا، زبان کی لاج رکھے گا وفا کا قرض نبھائے گا لیکن اندھی تقلید کی بجائے تعمیری تنقید اور اختلاف رائے کے ذریعے مسلم لیگ(ن) کی موجودہ قیادت کو اس کی کج  روی کا احساس دلاتا رہے گا۔پانامہ کیس کا فیصلہ آنے سے قبل27 جولائی کوبھی چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ن لیگ کے ساتھ اپنی ساری زندگی دائو پر لگائی اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا لیکن مجھے سینئر ترین مشاورت میں نہیں بلایا گیا اورمیرے لئے یہ کہنا تضحیک آمیز ہے کہ مجھے مشاورت سے الگ کیاگیا، چوہدری نثار نے حال ہی میں ہونے والی مسلم لیگ(ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے دوران مشاورت کے بغیر پارٹی کے قائم مقام صدر سردار یعقوب خان ناصر کے انتخاب کے طریقہ کار پر بھی شدید تحفظات کااظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جب لاہور میں بیٹھ کر ہی فیصلے کرنے ہیں تو پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کااجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔

یہ عام توقعات کے برعکس نیوزکانفرنس تھی، باالفاظ دیگر چوہدری نثار علی خان نے تدبر اور دانش مندی سے ایسے تمام عناصر کی گیم الٹ دی جو انہیں میاں نواز شریف کے مقابل لانے کے خواہاں تھے اور وہ اس فلسفے کے داعی تھے کہ چوہدری نثار علی کی صورت میں مسلم لیگ کے گھرانے میں عصر حاضر کےموسیٰ نے جنم لے لیاہے۔

تازہ ترین