• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف اور ان کے گھروالوں کیلئے نیب کے سامنے پیشی ایک غیر ضروری عمل

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)معزول وزیرا عظم نواز شریف اور ان کے گھروالوںکا ماننا ہے کہ ان کا نیب کے سامنے پیش ہونا ایک غیر ضروری عمل ہے کیوں کہ ان کے خلاف دائر کیا جانے والا ریفرنس عدالت عظمیٰ کے سنائے جانے والے 28جولائی کے فیصلے کے مطابق پہلے سے طے شدہ ہے۔

وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ اس کیس کو نیب کے تحقیقات کاروں کے سامنے رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہےکیوں کہ وہ اس معاملے سے متعلق آزاد رائے دینےسے قاصر ہیں۔حکم نامے میں نیب کو اپنا فیصلہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں دی گئی ہےبلکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ احتساب عدالت میں ریفرنس ہر صورت دائر کریں۔عدالتی حکم نامے میں نیب کو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ فیصلے کے 6ہفتوں کے اندر احتساب عدالت میں ریفرنس بھیجیں۔باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ سابق وزیر اعظم اپنے وکلاء کے مشوروں پر عمل کررہے ہیں، جنہوں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ نیب کے سامنے پیش نہ ہوںاور انہیں ریفرنس فائل کرنے دیں۔

ان کی رائے یہ ہے کہ نیب کے سامنے پیش ہونا وقت کا زیاں ہےکیوں کہ انہیں فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہے لہٰذا ان کا ذہن تبدیل نہیں ہوگا۔یہ واضح ہوچکا ہے کہ سابق وزیرا عظم اور ان کے گھروالے نیب کو کچھ بھی بتائیں وہ بے سود ہوگا کیوں کہ احتساب عدالت میں ریفرنس ہر حال میں دائر کیے جانے ہیں۔فیصلے میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ، ایف آئی اے اور نیب کے پاس کوئی بھی متعلقہ موادیا باہمی قانونی معاونت کی درخواست سے جو کچھ بھی سامنے آئے گا، وہی اس کیس کی بنیاد ہوگا۔نیب کے پاس بہت کم یا نہ ہونے کے برابر اختیار ہیں سوائے اس کے کہ وہ این اے او، 1999کو بروئے کار لاکر ریفرنس دائر کرے اور اسے ٹرائل کورٹ میں لے جانے کی استدعا کرے ۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شریف خاندان پہلے ہی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرچکا ہےجسے عدالت عظمیٰ نے بھی  حقائق کے طور پر نہیں لیا تھاکیوں کہ اس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں سنایا گیابلکہ اسے نیب کے ذریعے احتساب عدالت بھجوایا گیا ہے۔جب کہ عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو جے آئی ٹی رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر نااہل نہیں کیا گو کہ عدالت نے جے آئی ٹی کے 6ارکان کی محنت اور ان کے معاونین کی رپورٹ کی تیاری کی کوششوں کو سراہا ضرور تھا۔ان کی مدت ملازمت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، ان کے خلاف کوئی منفی اقدام بشمول ٹرانسفر ، پوسٹنگ بھی نگراں جج کے علم میں لائے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔اس مقصد کے لیے بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کو نامزد کیا گیا۔تاہم اپنی نظر ثانی کی درخواست میں نوا زشریف نے جے آئی ٹی ارکان کے کام کو سراہے جانے اور اس کی تعریف کرنے پر سوال اٹھایا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شریف خاندان ریفرنس دائر ہوجانے کے بعد احتساب عدالتوں میں اپنے کیس کا بھرپور دفاع کرے گا۔ذرائع نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ نیب شریف خاندان سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ انہیں ریفرنس دائر کرنے کی بنیاد کے طور پر جے آئی ٹی رپورٹ دی گئی ہے۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ شریف خاندان اگر اپنے آپ کو نیب تحقیقات کاروں کے سامنے پیش بھی کرتا ہے تو وہی باتیں دہرائے گا جو اس نے جے آئی ٹی یا اس سے قبل پاناما کیس کی طویل سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا۔ایک وکیل نے دی نیوز کو بتایا کہ اس بات کا خطرہ تھا کہ شریف خاندان کی جانب سے نیب کے سامنے پیشی میں کوئی بھی نیا بیان ان کے خلاف ٹرائل کورٹ میں استعمال ہوسکتا ہے۔لہٰذا یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ انہوں نے جے آئی ٹی یا عدالت عظمیٰ کو جو کچھ پہلے بتایا تھا، وہی بات بتائی جائے گی اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ نیب اپنی سماعت میں تمام دیگر اشخاص کو بھی شامل کرے جس میں شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود قاضی، جاوید کیانی اور سعید احمد (صدر نیشنل بینک آف پاکستان)شامل ہیں۔جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ نوازشریف، مریم نواز، حسین ، حسن اور سینیٹر اسحٰق ڈارسے تعلق رہا ہے۔نیب کو اگر دیگر کسی اثاثہ جات کا علم ہوتا ہے تو وہ ضمنی ریفرنسز بھی دائر کرسکتا ہے۔حکم نامے میں احتساب عدالت کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ ریفرنس دائر ہونے کی تاریخ سے 6ماہ کے اندر ان ریفرنسز کا فیصلہ سنائے۔اس دوران اگر اسے کوئی بھی وثیقہ، دستاویز یا حلف نامہ جو کہ مدعاعلیہا ن یا دیگر افراد نے یا ان کی جانب سے جمع کرایا گیا ہو، جعلی، نقلی، تبدیل شدہ پایا جائے تو وہ قانون کے مطابق متعلقہ شخص کے خلاف باقاعدہ اقدامات کرے۔

تازہ ترین