• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے ضلع تھر پارکر میں قحط اور ناکافی طبی سہولتوں کی بنا پر گزشتہ کئی سال سے بچوں سمیت انسانی اموات کا افسوسناک سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے سال 2016کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ تھر پارکر میں قلت خوراک اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کے باعث 13سو سے زائد بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ محکمہ صحت کے ذرائع نےصرف سال رواں میں 172سے زائد بچوں کی اموات کی تصدیق کی ہے۔ تھر کے انسانی المیہ کا عدلیہ کی جانب سے بھی سوموٹو نوٹس لیا گیا لیکن تاحال یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ ایک خبر کے مطابق سول اسپتال مٹھی میں صحت کی سہولتیں اور معیاری ادویہ نہ ہونے کی وجہ سے مزید تین بچوں سمیت پانچ افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ کئی روز تک موسلا دھار بارشیں ہونے کے باوجود علاقے میں ہنوز غذائی قلت برقرار ہے اور انتظامیہ کی جانب سے مچھر مار اسپرے بھی نہیں کیا گیا جس سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ تھر کے دور دراز دیہات سے مٹھی اسپتال آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد چکن گونیا، ملیریا، گیسٹرو میں مبتلا بتائی گئی ہے، غذائی قلت کے شکار مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق ضلع بھر میں وبائی امراض پر قابو پانے کے لئے میڈیکل ٹیمیں بھیجی جا رہی ہیں۔ تھر میں غذائی بحران کے مستقل حل اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ حکومتی سطح پر تھر کے باسیوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے اس حوالے سے تھر پر یو این کی تازہ رپورٹ کی سفارشات سے بھی مدد مل سکتی ہے ۔ علاقے میں مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر پر غور کیا جانا چاہئے۔ ضلع میں اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ وہاں پر بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنانے سے بچوں سمیت انسانی جانوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ مریضوں کی جانب سےمقامی اسپتالوں و طبی مراکز میں غیر معیاری ادویہ کی جو شکایات سامنے آرہی ہیں ان کا دور کیا جانا بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین