• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ عنوان کو معروف بھارتی صحافی برکھا دت سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں اگرچہ برکھا بڑی کڑوی باتیں بڑے آرام سے کتابوں کی زینت بنا دیتی ہیں۔ انہوں نے کارگل اور کشمیر کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا رکھا ہے۔ یہ برکھا ہی بتاتی ہے کہ جب پاکستانی فوج نے بھارتی چوٹیوں پر قبضہ کر رکھا تھا تو اٹل بہاری واجپائی نے ایٹمی جنگ شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ خیر یہ موضوع بحث طلب ہے مجھے تو اتنا یاد ہے کہ کارگل میں پاکستان فاتح کے طو رپر قدم بڑھا رہا تھا پھر ان قدموں کو روک دیا گیا۔ اگر ان قدموں کو نہ روکا جاتا تو مسئلہ کشمیر کو حل ضرور کرنا پڑتا۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جاتا تو آج کشمیریوں کو خون نہ بہانا پڑتا۔ کارگل محاذ سے واپسی کے بعد سے کشمیریوں کی جتنی شہادتیں ہوئیں ان کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے مسئلہ کشمیر کو ٹھنڈا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ یہ تو وادیٔ کشمیر کے نوجوانوں کی بہادری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بڑی جرأت مندی سے ظالم بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں، ان کی گلیوں میں کرفیو ہے، ان کے گھروں میں لاشے آتے ہیں، صف ماتم بچھتی ہے مگر اس سب کے باوجود کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی وزارتِ خارجہ اور قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہی خاموشی پاکستان کی سیاسی قیادت کو بے نقاب کرتی ہے کہ سیاسی رہنما خاموش رہ کر کس کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ آخر وہ کیوں خاموش ہیں، وہ کیوں کشمیریوں کا مقدمہ مختلف ملکوں کے سامنے نہیں رکھتے، وہ کیوں جنرل اسمبلی میں اس مقدمے کی شدو مد سے پیروی نہیں کرتے، وہ سلامتی کونسل کی توجہ کیوں نہیں دلاتے، وہ کیوں او آئی سی کا اجلاس نہیں بلاتے، وہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو کیوں نہیں بتاتے کہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ یہ سارے کیوں، میرے سامنے اس وقت ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو گئے جب برطانوی رکن پارلیمنٹ اور لیبر پارٹی کے اہم رہنما اینڈریو مجھے یہ بتا رہے تھے کہ ’’ہم نے اپنی پارٹی کے منشور میں کشمیر کے مسئلے کو شامل کیا ہے، پچھلے ستر سالوں میں کسی برطانوی پارٹی نے کشمیر کے مقدمے کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا تھا، ہمارا دل وہاں ہونے والے ظلم پر رنجیدہ ہے‘‘ اینڈریو نے اپنا موبائل فون نکالا اور پھر کھڑے ہو کر مجھے اس میں سے تصویریں دکھانے لگ گیا۔ ان باتوں کے گواہ پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ واجد خان، کونسلر عاصم رشید خان، فدا کیانی اور جموں و کشمیر موومنٹ کے چیئرمین راجہ نجابت حسین ہیں۔
پاکستانی حکومت کو مسئلہ کشمیر پر خصوصی توجہ دینی چاہئے کیونکہ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد کرنا ہمارا فرض ہے مگر پاکستانی سیاستدانوں کی سیاست کا کیا کہنا کہ وہ کشمیر میں بھی نالائقوں کا راج چاہتے ہیں۔ انہوں نے بڑے طریقے سے کشمیر کے واحد سمجھ دار، پڑھے لکھے اور بے باک رہنما سردار عتیق احمد خان کو پیچھے دھکیل دیا ہے حالانکہ آزاد کشمیر کا بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سب سے موثر موقف سردار عتیق احمد خان کا ہے۔ جتنا وہ کشمیر کو جانتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا رہنما جانتا ہو۔ انکے روابط پوری دنیا میں ہیں، انہیں اسلامی دنیا میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ بھارت کی خواہش ہو کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں سردار عتیق احمد خان جیسے زیرک اور ذہین سیاستدان کو پیچھے دھکیلا جائے اسی لئے وہاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ملی بھگت سے سردار عتیق احمد خان کا راستہ روکا۔ گزشتہ الیکشن کے نتائج کے مطابق آزاد کشمیر اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سردار عتیق احمد خان کو بننا تھا مگر مسلم لیگ ن نے خصوصی نشستوں پر پیپلز پارٹی سے خصوصی محبت کی، اپنی نشستیں انہیں دے کر آزاد کشمیر کی واحد ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کے سربراہ کا راستہ روکا گیا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مل کر پچھلے کچھ سالوں سے جو کچھ کر رہی ہیں اب کھیل کے آخری منظر میں بھی وہ ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کریں گی۔ کئی سالوں سے ایک دوسرے کو سہارا دینے والے پھر سے سہارا دینے کی کوشش کریں گے۔ ایک باخبر دوست کے مطابق آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا پروگرام کچھ اس طرح سے ہے:
(1) میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔
(2) دونوں کی مرضی سے جوڈیشل کونسل میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے گا تاکہ پانچ رکنی بنچ ٹوٹ جائے پھر اس کے بعد نواز شریف لارجر بنچ کی درخواست دیں اور پھر اس لارجر بنچ کے روبرو نظرثانی کی اپیل کی جائے۔
(3) ججز کی ترقی، تعیناتی پارلیمنٹ کے ذریعے ہو، سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس پارلیمنٹ کی مرضی سے بنیں۔
(4) فوج میں بریگیڈیئر اور اس سے اوپر ترقیاں اور تعیناتیاں پارلیمنٹ کرے، کور کمانڈرز کی تعیناتیاں اس میں شامل ہوں گی۔
(5) ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پارلیمنٹ کے ذریعے ہو گی اور پارلیمنٹ گریڈ بائیس کے کسی سویلین افسر کو بھی ڈی جی ISIتعینات کر سکے گی، اس کیلئے کسی بھی ریٹائرڈ یا سرونگ آفیسر کو تعینات کیا جا سکے گا۔
(6) آئین سے آرٹیکل62/63کو مکمل طور پر نکال دیا جائے گا۔
(7) چیئرمین نیب اسی سال اکتوبر میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے، کوئی بھی اہم ریفرنس ان کی منظوری کے بغیر فائل نہیں کیا جا سکتا، تاخیری حربے کے طور پر وہ چھٹی پر رہیں گے اور نیا چیئرمین آئین کے تحت دونوں پارٹیاں مل کر بنائیں گی۔ خودساختہ اختلاف پیدا کر کے چھ سات مہینے نئے چیئرمین کی تعیناتی میں تاخیر کی جائے گی۔ نواز شریف پہلے ہی نیب کے روبرو پیش نہیں ہو رہے کیونکہ وہ پہلے نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
(8) نئی ڈیل کے تحت آصف زرداری کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ آئندہ صدر بن جائیں اور اگلی حکومت بھی پیپلز پارٹی بنائے۔
(9) مبینہ طور پر بیگم کلثوم نواز اپنے لندن میں قیام کے دوران آصف علی زرداری کو چار بلین ٹرانسفر کرانے کا بندوبست کریں گی۔
(10) آصف زرداری اس ڈیل پر خوش ہیں کہ وہ صدر بن کر استثنیٰ حاصل کر لیں گے، ان کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں آ سکے گا۔
(11) اسی دوران نواز شریف ’’دل کے ہاتھوں مجبور‘‘ ہو کر ایئر ایمبولنس کے ذریعے لندن چلے جائیں گے اور واپس نہیں آئیں گے۔
(12) شاہد خاقان عباسی مسلم لیگیوں کے اختلافات کو بنیاد بنا کر اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ ‘‘
میرے دوست نے یہ بارہ نمبری پروگرام بتا کر کہا ’’یہ ہے دونوں کا پروگرام‘‘ اس پروگرام کے بعد میرا ایک ہی خیال ہے کہ برکھا خوب برسے گی، خواب چکنا چور ہو جائیں گے، سب کچھ صاف ہو جائے گا، کڑا احتساب دروازے پر کھڑا ہے، کوئی نہیں بچ سکے گا۔ پروگرام دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔
لاہور اور ملتان میں ہونے والی گزشتہ روز کی وکلا گردی کے پیچھے کون ہے؟ اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر قانون کا موقف وکلا کے ساتھ ہے، حالیہ چند دنوں میں مسلم لیگ ن کی کچھ میٹنگوں میں پنجاب کے گورنر رفیق رجوانہ، نواز شریف کے انتہائی قریب نظر آئے ہیں۔ واضح رہے کہ رفیق رجوانہ کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ خیر سے وکیل ہیں۔ جو کچھ بھی ہو، ملک کے کرپٹ سیاستدان نہیں بچ سکتے۔ وہ افراتفری کا جتنا ماحول پیدا کر لیں، اب برکھا برسے گی، انصاف کا بول بالا ہو گا، ریاست کی عملداری ہو گی۔ فی الحال صائمہ الماس کا شعر پڑھیے ؎
ہر اِک جواب سے سو سو سوال ہیں ابھرے
یہ تم نے ذہن سے اچھے سوال نوچے ہیں

تازہ ترین