• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینڈکی ٹیم میں وہ بچہ سب سے پیارا لگ رہا تھا ، اس کی شوخی اور شرارت اس کے بچپن کو اور بھی حسین بنا رہی تھی ، اس نے الٹی کیپ پہن رکھی تھی اس کی پینٹ ٹخنوںسے اونچی تھی یعنی اس کی لمبائی سے مطابقت نہیں رکھتی تھی ، اس کے شوزکےتسمے کھلے ہوئےتھےمجھے یقین ہے کہ جب وہ اسکول آیا ہوگا تو اس نے شوز اگر پالش نہیں بھی کئے ہوںگے تو صاف ضرور کئے ہونگے لیکن ا سوقت گر د سے ایسے اٹےہوئےتھے جیسے پالش برش یا صفائی کا کپڑ ابھول کر بھی کبھی بوٹوں کےپاس نہیں گیا تھا لیکن وہ بچہ اس ساری صورتحال میں بھی اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ میرا دل مچل اٹھا کہ میں اس بچے کی تصویربنا کر نہ صرف اپنےپاس رکھوں بلکہ سوشل میڈیا کی زینت بنادوں تو یہ تصویر ضرور وائرل ہوگی میری نظر یں اس بچےپر جمی ہوئی تھی کہ اچانک ایک شور او رایک ٹیچر کے دھکے نے اس بچے کی ساری شرارت فشوں کردی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ اس بچے کو میری نظر لگ گئی ہے اگر نظر نہیں بھی لگی تو اس بچے پر ٹیچر کے اس ڈسپلن نما تشدد کا میں ہی ذمہ دار تھا، یہ ایک مضافاتی علاقے کا اسکول تھا اور مجھے انہوںنے جشن آزادی کی تقریب کے سلسلے میں بطور مہمان خصوصی بلایا تھا ، تقریب کا وقت دس بجے تھا لیکن میں گھر سے اس وجہ سے جلد نکل آیا تھا کہ کہیں ٹریفک اور کسی اور وجہ سے تاخیر کا شکار نہ ہوجاؤں لیکن میں خلاف توقع 30منٹ پہلے ہی اسکول پہنچ گیا اسکول کے گیٹ کے قریب پہنچ کر مجھے احساس ہوا چونکہ میں قبل از وقت آگیا ہوں اس لئےا سکول کی ایڈمنسٹریشن کو فون کرکے اپنی آمد سے آگاہ کردوں کہ میں پہنچ گیا ہوں ۔میں کوئی بہت بڑی شخصیت نہیں ہوں لیکن پھر بھی اسکول والوں نے اپنے اسکول کے بینڈ کو میرے استقبال کیلئے گیٹ کے قریب ہی کھڑا کررکھا تھا، اور ابھی چونکہ میر ی آمد متوقع نہ تھی اس لئے بینڈ کی ٹیم کے بچے اپنی شرارتوں میں مشغول تھے۔جب بینڈٹیچر کو پرنسپل آفس سے اطلاع ملی کہ بچوں کو فوراً لائن اپ کرکے بینڈ کی دھنیں بکھری جائیںتومیں اس وقت تک بیٹڈ کی ٹیم کے پاس پہنچ چکا تھا اور پیارے بچے کی شرارتوں کے سحر میں کھوچکا تھا بچپن کتنا خوبصورت اور معصوم ہوتا ہے لیکن ٹیچر کے دھکے اور جھنجھوڑنے پر اس بچے کو ساری معصومیت اور قدرتی پن کو غائب کردیا تھا ، سچی بات ہے مجھے ٹیچر کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا لیکن اس وقت میں کچھ کہہ نہ سکا ، بچوں نے بڑے ڈگ ڈگے (ڈھول) بانسریوں اور تھالیوں کی تھاپ سے میرے استقبال میں دھن بجانا شروع کردی، پرنسپل میرے استقبال کیلئے آچکے تھے مجھے ایک بچے نے گلدستہ بھی پیش کیا ، تھوڑی ہی دیر بعد رچم کشائی کی تقریب ہوئی بچوں نے مل کر ملی نغمے بھی گائے ، پرنسپل صاحب کی تقریب کے بعد میں نے بھی تقریر کی لیکن مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پرنسپل اور میں دونوں ایک بے معنی تقریر کررہے ہیں لیکن عملی طورپر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے ، تقریب ختم ہوئی چائےپر میں نے پرنسپل صاحب سے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ بچوں کا ادب اور ان سے پیار ہی ان کو آئندہ بہترین رویوں والا انسان بناتاہے ، جواب میں انہوں نے مجھے ایک لمبے بھاشن کے ذریعے بتایا کہ ان کا ادارہ کس طرح بچوں کو مار نہیں بلکہ پیارسے اچھا انسان بنانے کی کوشش کررہاہے لیکن میں کچھ دیر پہلے اس کے برعکس ایک ٹیچر کا عملی مظاہرہ دیکھ چکا تھا لیکن اس کو دوہراکر پرنسپل صاحب کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا بات آئی گئی ہوگئی لیکن گزشتہ روز اس وقت میرے سامنے وہ معصوم بچہ پھر آگیا جب میں نے سوشل میڈیا پر ایک و یڈ یو دیکھی جس میں غالباً ایک ماں جو اپنی بیٹی کے منہ پر تھپڑ مار کر اسے ون سے فائیو تک گنتی سکھانے کی کوشش کررہی تھی، عمر میں بہت چھوٹی اور معصوم بچی کو نہ جانے اس کی ماں چند سالوں میں پی ایچ ڈی کرانا چاہتی تھی کہ زناٹے دار تھپڑ رسید کرکے اسے ون ٹو فائیو تک گنتی سکھانا چاہتی تھی جہاں جواب میں وہ معصوم بچی بادل نخواستہ گتنی سنا رہی ہے وہاں اس بچی کے لہجے میں بھی ڈر کے سا تھ تشدد بھی بھرا ہوا ہے جو شاید آنے والی ساری عمر اس کے ذہن میں بھرا رہے گا ، شاید وہ اگر ایک ٹیچر ہوگی تو ایسا ہی تشدد کرکے پوری ایک نسل میں تشدد بھر دے گی ، بہن ، بیوی ، ماں ایک ہمسائی اور ایک ٹیچر سمیت اس کا کوئی کردار ہوا وہ اچھا نہیں ہوگا، ون ، ٹو ، تھری ، فور، فائیو تو وہ شاید چند دنوں بعد بھی سیکھ جائے لیکن اس کی شخصیت سے یہ تشدد کبھی نہ نکل سکے۔اپنی نئی نسل کو اگر ہم نے تشدد سے نکا لنا ہے تو پھر پیا ر اور احترا م کے رویّے اپنا نا ہو نگے۔

تازہ ترین