• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے سر چشمے تحریر:محمد عجیب سی بی ای…بریڈفورڈ

ورمائوں یونیورسٹی امریکہ کے انگریزی کے استاد ہُک گٹمین نے لکھا تھا:’’دہشت عدم استحکام پیدا کرتی ہے ، تعمیر نہیں کرتی، اور عدم استحکامت خلا پیدا کرتی ہے جسے اکثر و بیشترفسطائی عزائم کے حامل پُر کرتے ہیں، چاہے یہ فسطائیت مذہبی بنیاد پرستی کی سرپرستی میں ہو رہی ہو یا ملٹی نیشنل نو آبادیت کے زیر اثر پروان چڑھی ہو‘‘۔ اِس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیںکہ دہشت گردی تسلط اور آمریت کی ناجائز سرحدوں کے اندر پھلتی پھولتی ہےیہ سامراجی طاقتوں کی کھڑی کردہ دفاعی دیواروں کے پیچھے ناسور بنتی ہے۔ یہ اُن سرحدوں کو پار کرکے اور جنگلوں کو پھلانگ کر اُن ملکو ں کے اندر دھماکے کے ساتھ پھٹتی ہے جو تسلط اور غلبے کے ذمہ دار ہوتے ہیں یا اِس کی اعانت کرتے ہیں۔ اِس علت و معلول کا واضح اور صریح اظہار کشمیر اور فلسطین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سوویت روس کابل کی سیاسی و فوجی معاونت سے محروم کرنے کے قریب روس نوازحکومت کو سہارا دینے کے لیے1979 میں افغانستان میں داخل ہوا ، لیکن حقیقت یہ تھی کہ روسیوں کے افغانستان میں داخل ہونے سے کم و بیش چھ ماہ قبل امریکیوں نے اسلامی بنیاد پرست مجاہدین کوامداد بہم پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اُس وقت صدر جمی کارٹر کے سیکورٹی کے مشیر زگنیو بر ززنسکی کا کہنا ہے کہ اُن کی یہ امداد روسیوں کو افغانستان میں داخل ہونے کے لیے چکمہ دینے کے لیے تھےتاہم سوویت روس کی افغانستان پر چڑھائی سے مغربی ممالک کے دارالحکومتوںمیں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ امریکہ نے سوویت روس کی اِس چال کو جنوبی ایشیائی و مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنے مفادات کو سخت خطرے میں محسوس کیا۔چنانچہ خطرہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی کا دیرینہ روسی خواب حقیقت کا روپ نہ دھار لے۔امریکہ روسیوں سے براہ راست ٹکرانے پر رضامند نہیں تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے پاکستان کے چھٹے صدر جنرل ضیا الحق سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیںتا کہ وہ اپنے ملک کو اگلے مورچے کے طور پر استعمال کیے جانے کی اجازت دے جہاں سے اُن کے اسلحہ و دولت کے ساتھ روسیوں کے افغانستان پر قبضے کو کمزور کرنے کی جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔ مجاہدین کی تربیت اور اُنہیں مسلح کرنے کی ذمہ داری جنرل ضیا الحق پر عائد ہوتی ہےجنہوںنے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد و رہنمائی سے اور امریکی سی آئی اے کی شراکت کے ساتھ یہ سب کچھ کیا۔ ایک خود ساختہ اور سرگرم اسلام پسند ضیا ’’بے خدا ، ملحد اورکمیونسٹ فتنے‘‘ کو افغانستان سے باہر نکالنے کا مصمم ارادہ رکھتا تھا۔کمیونزم کے ’’شر‘‘ کے خلاف جنگ میں شرکت کرنے کے لیے کم و بیش ساری دنیا سے رضا کار بھرتی کرکے اُن کو تربیت دی گئی بالخصوص مصر ، عرب ممالک حتیٰ کہ چین سے بھی رضا کاروں کو مدعو کیا گیا۔ مجاہدین کی بھاری اکثریت جو بے خدا کفار کے خلاف لڑنے اور جانیں قربان کرنے کو تیار تھے ، پاکستانیوں اور افغانوں پر مشتمل تھی۔ مبینہ طور پر پاک فوج کی متعدد بٹالین افغان مجاہدین کے لباس میں شریک جنگ رہیں۔ اِس طرح امریکیوں اور اُن کے پختہ اتحادی ضیا الحق نے سعودیوں کی مالی پشت پناہی کے ساتھ مذہبی نظریاتی انتہا پسندی کی نظریاتی بنیادیں رکھیں اور جہاد کے شعلے کو پھر سے بھڑکا دیا۔ اِسی اثنا میں جنرل ضیا ، امریکی سفیر اور کچھ فوجی افسروں کے ساتھ فضائی حادثے میں مر گیا۔ اُس وقت تک وہ اِس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ مسلمانوں سے متعلق امریکی پالیسیاں قابل نفرین ہیں اور اِس کی تشکیل مسلمانوں پر غلبہ برقرار رکھنے کے تحت کی جاتی ہے۔ روسیوں کے افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکیوں نے بھی اپنے پیچھے افغان جنگجو سرداروں کو چھوڑ کر افغانستان کو خیر باد کہاجو اگلے ایک عشرے تک غلبے کی خاطر آ پس میں بر سر پیکار رہے جب کہ پاکستان کی اِنٹیلی جنس ایجنسی اُنہیں کنٹرول کرنے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مصروف رہی۔ اُس زمانے میں انٹیریر ڈیپتھ پاکستانی سیاست میں مستعمل عام اصطلاح کے طور پر رواج پا گئی تھی۔ اِس عرصے میں پاکستان کے مذہبی مدارس میں زیر تعلیم افغان طالبان کے گروہ کے گروہ آپس میں نبرد آزما افغان سرداروں سے اقتدار چھیننے کو تیار ہو چکے تھے ۔ یہ تھے وہ طالبان جو تربیت یافتہ ہو کر اپنے ایک آنکھ والے لیڈر ملا عمر کی فتح کے لیے لڑنے کو تیار تھے ۔جنگ کے باعث تباہ و برباد افغانستان میں جب طالبان پیش قدمی کرتے ہوئے کابل کی طرف بڑھ رہے تھے تو وہ اپنے ساتھ جنگی سردار گلبدین حکمت یار کو بھی اپنے سیلابی ریلے میں بہا کر لے گئے جو کبھی پاکستانی آئی ایس آئی کی آنکھ کا تارا تھا۔ اُن کا سردار یا امیر ایک آنکھ والا ملا عمر تھا جس نے اپنے حریفوں کو شکست فاش دے کر 1996 میں طالبان حکومت کی بنیاد رکھی اِس طرح افغانستان ایک دولت مند سعودی اسامہ بن لادن کا محفوظ مسکن بن گیاجس نے روسیوں سے نبٹنے کے بعد اب امریکیوں سے انتقام لینے کی غرض سے اپنا گروپ القاعدہ منظم کیا۔ روسیوں کے افغانستان سے انخلا کے فیصلے اور اُن کی ذلت آمیز شکست اور مجاہدین و امریکیوں کی عظیم فتح پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ مغرب نے سکھ کے سانس کے ساتھ ، اِس فتح کے طویل المدتی نتائج کا احساس کیے بغیر جشن بنایا ۔امریکہ اور اُس کے اتحادی اِس فتح پر اِس قدر مخمور تھے کہ انہیں اِس بات کا احساس تک نہ تھا کہ وہ اپنے پیچھے افغانستان اور پاکستان دونوں میں طالبان اور القاعدہ کا چھوڑے جا رہے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ القاعدہ اور طالبان کی تخلیق اور اِس کی نشو و نما کرنے کی ذمہ داری امریکہ اور سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے اور ضیا کے مذہبی عقاہد اور اوہام کے باعث پاکستان کو اُنہوں نے فرنٹ لائن ریاست کے طور پر استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ ملک اب تک انتہا پسندی اور دہشت گردی کی گرفت میں ہے اور عراق کے بعد اِسے بین الاقوامی طور پربد ترین تشدد اور دہشت گردی کا شکار مانا جاتا ہے۔ اُس کے بعد 11/9کا حادثہ پیش آیا جس کے باعث ٹوئن ٹاورز اور پینٹا گان کو نشانہ بنانے والے19میں سے 17دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ حساس ذرائع نے اِس حملے میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی۔ملا عمر نے اُسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیاجس کی وجہ سے امریکہ اور اُس کے نیٹو اتحادیوں نے اٖفغانستان پر حملہ کر دیا جو اب تک جاری ہے۔عراق پر بُش اور بلیئر نے 2003میں جمہوریت کے نام پر ایک اور جنگ مسلط کر دی۔آنے والے سال کے دوران امریکی سامراج اور اُس کے اتحادیوں نے لبیا ، شام اور یمن پر بظاہر حکومتوں کو بدلنے اور اِن ملکوں کے لوگوں کو آزادی اور جمہوریت دینے کے نام پر حملے کر دیئے۔ لیکن اِن سب دعوؤں کے برعکس اِن تمام ملکوں اور اُن کی دولت، قومی اور ثقافتی ورثے اور اُن کے انفرا سٹرکچر کو اِس حد تک تباہ و برباد کر دیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ لاکھوں کی تعداد میں معصوم شہریوں کو خوفناک طریقے سے ہلاک کر دیا گیااور لاکھوں کو اُن کے گھر چھوڑنے اور غیر مطلوب تارکین بننے پر مجبور کر دیا گیا۔ وہ ممالک جو اِن ملکوں میں قتل عام کے ذمہ دار ہیں ، اُ نہوں نے اِن تارکین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اِس طرح بعض مسلم ممالک میںمغرب کی پیدا کردہ افراتفری ، اشتعال ، بے چینی اور تقسیم درحقیقت انتہا پسندی اور دہشت گردی پیدا کرنے کا سب سے بڑا باعث ہے۔ ہر وہ قوم جسے دیوار کے ساتھ لگایا جائے وہ تشدد کی راہ اپنائے گی۔ مایوسی کے عالم میں لوگ ایسی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں جو عام حالات میں کرنا نہیں چاہیں گے۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل دنیا بھر میں طاقت اور قوت کے سامنے جھکنے، دبنے اور قابو میں آنے کو تیار نہیں۔ ٹیکنالوجی میں تیزی کے ساتھ ہوتی ہوئی ترقی اورانٹر نیٹ تک رسائی ، سوشل میڈیا کے ہمراہ معلومات اور نظریات کا تبادلہ دنیا بھر کے دور دراز حصوں میںچند سیکنڈوں میں ممکن ہو گیا ہے۔ دعش اور القاعدہ جیسےگروپ وجود میں آگئے ہیں اور اِنہوں نے اپنے آپ کو اُن ملکوں میں منظم کیا ہے جہاں موثر حکومتیں نہ ہونے کے باعث سول نا فرمانی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ چنانچہ یہ تنظیمیں محض خلا پُر کرنے کا باعث ہیں۔ اِن کی سفاکیت کا شکار 9.99فیصد مسلمان ہیں اگر استعماری قوتیں اور اُن کے اتحادی جنگوں سے تباہ حال اِن ملکوں کو اُن کے سیاسی ، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے مطابق حالات کو معمول کے مطابق ڈھالنے کا موقع دیں تو یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔یہ اُنہی جگہوں میں پھلتے پھولتے ہیں جہاں یا تو حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو بہت کمزور ہوتی ہے۔ تاہم مغربی ممالک میں قلیل تعداد میں مسلمانوں کی دہشت گردکارروائیاں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے فلسطین اور کشمیر میں روا رکھی گئی ریاستی دہشت گردی کے رد عمل کا نتیجہ ہیں یہاں میں انتہائی واضح اور دیانتداری کے ساتھ بلا خوف تردید یہ کہنا چاہوں گا کہ برطانیہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری زیر بحث ملکوں کے اندرونی معاملات میں برطانیہ کی مداخلت کی پالیسی کے باعث ہے۔ ہمارے قومی پریس اور میڈیا کے بعض حصوں نے بڑے تسلسل کے ساتھ مسلم کیمونیٹیز کو ڈراونا اور غیر انسانی بنا کر پیش کیابیشک کسی بھی مہذب اور پُرامن معاشرے میں دہشت کی ہر کارروائی قابل نفرت اور ناقابل قبول ہے اور جو کوئی بھی اِس گھناونی سوچ کا پرچار کرے یا اِس کو بڑھاوا دے اُس کا مواخذہ اور تادیب ضروری ہےلیکن ساری کیمونٹی کو ایک ہی رنگ میں رنگنا نہ صرف بے انصافی اور غیر موزوں ہے بلکہ یہ کیمونٹی کوہیژن کے بھی خلاف ہے من حیث المجموعی تین ملین مسلمان قانون کا احترام کرنے والی پُر امن کمیونٹی ہیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصے سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔حکومت اور حساس ادارے اِس برائی کا ابتدا ہی سے ، جب نوے کے عشرے میں اِس نے سر اٹھانا شروع کیا تھا ، قلع قمع کرنے سے متعلق نرمی سے کام لیتے رہے ہیں 1999 میں میں نے ایک پیپر لکھا تھا جس میں لیبر حکومت کو بعض مسلم تنظیموں سے متعلق متنبہ کیا تھا جن میں بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی جنہوں نے سوڈان، پاکستان اور افغانستان میںدہشت گرد سر گرمیوں میں مصروف عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط قائم کر رکھے تھے ۔اگرچہ میرا یہ پیپر نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں زیر بحث آیا تھا لیکن اِس پر کسی قسم کی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں سنا گیا۔ برطانیہ میں اِن تنظیموں کو فنڈنگ سعودی افراد اور حکومت مہیا کرتے رہے ہیں، اور یہ ایک ایسا ملک ہے جو دہشت گردی کا حمایتی ، فروغ دینے والا اور برآمد کرنے والے کی شہرت رکھتا ہے لیکن اِس کے باوجود امریکہ کا منظور نظر چلا آرہا ہے۔ کیا اِس سے مغرب کا دوہرا معیار اور منافقت ظاہر نہیں ہوتی؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کا حالیہ دورہ کیا اِس بات کا غماض نہیں کہ وہ اِس ملک میں مطلق العنانیت کے تسلسل کے حمایتی ہیں۔ جو تقریر اُنہوں نے وہاں کی اُس کے باعث سعودی عرب اور ایران کے مابین حالات کی بہتری کے عمل کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو سکتا ہے اُنہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم 39مسلم اکثریتی ممالک کے اتحادکے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی دہشت گردی کو فروغ دینے والے ایران کو تنہا کریں ، جب کہ ایران دعش کا شدید مخالف ہے۔ٹرمپ نے کھلم کھلا مشرق وسطیٰ میں مذہبی ، فرقہ وارانہ اور سیاسی تقسیم کو ہوا دی اور دنیا کو پیغام دیا کہ امریکہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم دفاعی اتحاد جو یمن میں بر سر پیکار ہے کا ساتھ دیتا رہے گا۔ ٹرمپ نے حماس اور حزب اللہ کو الگ کرتے ہوئے دہشت گرد قرار دیا جو صہیونیت کے خلاف ہیں اور عرصے سے امریکہ اور اسرائیل دونوں اِن تنظیموں کے مخالف رہے ہیں۔ ٹرمپ جانتے ہیں کہ سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی چپقلش مستقبل میںخطے میں فرقہ وارانہ جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ امریکہ اِس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ یہ دونوں ملک ایسی حماقت کے مرتکب ہوں۔ امریکی خارجہ پالیسی سازوں کو جلد اِس بات کا علم ہو جائے گا کہ یک قطبی دنیا کام زمانہ لد چکا۔ جلد ہی اسے نئے اتحادوں کے ساتھ اُبھرتی ہوئی نئی قوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کوربن نے کہا کہ ٹرمپ کو پل بنانے چاہیں نہ کہ دیواریں ۔ ٹرمپ کو اُس کے مشورے پر کان دھرنا چاہیے اور پورے عالم کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ دنیا کو تقسیم کرنے اور نفرت کی بنیاد پر نئی گروہ بندیاں برطانیہ میں 7/7کے لندن پر بدترین دہشت گرد حملوں سے لے کر اب تک بہت کم ایسا کچھ ہوا ہے۔ بارہ سالوں کے عرصے میں 85معصوموں کی زندگیا ں گئی ہیں اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں یہ خوفناک واقعات بھی بہت ہیں یہاں تک کہ محض ایک زندگی کا زیاں بھی بہت ہے اِن واقعات کے باعث اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوا ہے اور ہماری کیمونٹیز تقسیم کا شکار ہوئی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ عسکریت پسند اب بھی کسی وقت اور کسی جگہ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی پلے باندھنے کی ہے کہ دعش اور انگلش ڈیفنس لیگ ہمیشہ منقسم شخصیت کے حامل کمزرو اور بیمار افراد کی بھرتی کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اُنہیں شہروں کو نشانہ بنانے کے گھناونے مقاصد کیلئے استعمال کر سکیں تاہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ہمارے لوگوں کی زندگیوں پر مجموعی اثرات کا بڑے پیمانے پر جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔

تازہ ترین