• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو پھول ہے سو چاک گریباں ہے دوستو خصوصی مراسلہ..... تفاخر محمود گوندل

کسی بھی قوم کے عروج و زوال کے اسباب و علل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اُن میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اخلاقیات کا لفظ اتنا جامع، اتنا وسیع، اتنا اکمل ہے کہ وہ اقوام کے محاسن ِ تہذیب و تمدن کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ یوں تو اخلاقیات میں اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، لین دین گویا تمام کاروبار حیات شامل ہے مگر اس میں تہذیب و شائستگی، تحمل و بردباری، صبر و استقامت اور با لخصوص طرزِ تکلم کو جو تقدم و تفوق حاصل ہے وہ اہل حقیقت پر عیاں ہے ۔ کوئی انسان شرف آدمیت سے کس حد تک بہر ہ یاب ہے اس کا پتہ ابتلا و آزمائش کی گھڑیوں میں چلتا ہے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا عزم صمیم رکھنے والی اقوام ہمیشہ مصائب و آلام کی آندھیوں میں شمع استقامت و تحمل کو گُل نہیں ہونے دیتی بلکہ انھیں چٹانوں سے ٹکرانے میں لطف آتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بپا ہونے والے حالیہ سیاسی بحران میں میدان سیاست کے شہسواروں نے ( خواہ وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ) ایک دوسرے پر رکیک قسم کے ذاتی حملے کرتے ہوئے جس بازاریت کا مظاہرہ کیا ہے اُس سے عصمت آدمیت گریباں چاک کئے بیٹھی ہے ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے شوق میں جس جذباتیت کا شرمناک مظاہرہ دیکھنے میں آیا اوراق آدمیت میں اس کی کہیں مثل نہیں ملتی۔ پانامافیصلے سے پہلے اور بعد میں حکومتی اپوزیشن ترجمانوں کے طرز گفتگو سے اخلاقی محامد کا جو جنازہ اُٹھتا رہا اُس سے اہل فکر و نظر عزلت نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے خاص طور پر فیصلے کے بعدفریقین کی اعلیٰ قیادت کو زیر کرنے کے لئے اُن کے زاغ و زغن نے جس بھونڈے انداز میں مخدرات پاکستان کے ذریعے اخلاقی ضوابط کو پامال کیا اُس نے بین الاقوامی سطح پر ہماری روایات کا جنازہ نکال دیا ۔
رہ رہ کے پوچھتی ہے صبا شاخ شاخ سے
سارے چمن مین درد کا مارا کوئی نہیں
ان حالات کے تناظر میں مجھے 1970 ء کی دہائی کے وضع دار سیاستدانوں کا دور یاد آ رہا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو، نواب زادہ نصراللہ خاں، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور رفیق احمد باجوہ جیسی باکمال اور متحمل و متوکل مزاج ہستیاں بازار سیاست میں محو خرام تھیں ۔ ایک دوسرے کے خلاف مغلوب الغضب ہونے کے باوجود بھی شاعرانہ رموز کنایات اور خوبصورت تشبیہات و استعارات کو استعمال کرتے ہوئے بھی انتہائی وسیع الظرفی کے ساتھ ایک دوسرے پر تنقید اُن بردبار اور پیکران شکیبائی کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ خصوصاً بابائے جمہوریت نصر اللہ خان مرحوم اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت اکثر اشعار کا سہارا لیا کرتے تھے جس سے مخالفین کا دل بھی نہیں دکھتا تھا اور خود اُن کے وقار و تمکنت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا، اُن باوقار لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کتنا خوبصورت شعر نوک قلم پر آ گیا اب کون کرے جلوہ ٔ رنگیں کی تمنا۔۔ تُجھ سے بھی حسیں تر ہے تیری یاد کا عالم۔ مگر اب نوبت بہ ایں جا رسید کہ ارباب اقتدار و اپوزیشن کے قلوب و اذہان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت و کدورت کے لاوے اُبل رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ نوبت خواتین کی توہین تک جا پہنچی ہے جس قوم کے لیڈر ہر وقت عالم ِ غیظ و غضب میں رہتے ہوں، کارکنانِ قضا و قدر نے اُن کے چہروں سے مسکراہٹیں چھین لی ہو ں اُن کے کانپتے لرزتے ہوئے ہاتھ ایک دوسرے کا گریباں ڈھونڈ رہے ہوں، اعلیٰ عدالتوں کو اپنی پسند و نا پسند کی بھینٹ چڑھانے کا پروگرام بناتے ہوں، اگر فیصلہ حق میں آ جائے تو ججز قابل صد احترام خلاف آئے تو کراچی تا خیبر عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے پروگرام ترتیب دیتے ہوں ایسے کج خُلق اقتدار میں آ کر عروسِ قوم کے گیسوئے پریشاں کو کس طرح سنوار سکتے ہیں ۔ میں اس موقر روزنامے کے توسط سے اپنے ان سیماب فطرت اور تحمل و بردباری سے عاری رہنمائوں کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ خدارا اپنے اسلاف کی اخلاقی روایات کو رسوا نہ کریں۔ ایک دوسرے کی ذاتیات کو نیچا دکھانے کے لئے عصمتِ انسانی کو تو پامال نہ کریں میں اپنے میڈیا کے دوستوں سے بھی دل کی گہرائیوں سے ملتمس ہوں کہ اگر یہ لوگ ایک دوسرے کی شکست و ریخت کے شوق میں حد سے گزر جانا چاہتے ہیں تو آپ ہی ان کی ’’اخلاقی نفاست ‘‘کو اتنا اجاگر نہ کریں کہ گھروں میں چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنے والدین سے استفسار کریں کہ عائشہ گلالئی اور عائشہ احد کون ہیں اور کیا کہنا چاہتی ہیں۔
ایسا انقلاب گلستاں ہے دوستو
جو پھول ہے سو چاک گریباں ہے دوستو

تازہ ترین