• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے، شہروں میں بھی مکان ساتھ ساتھ تھے، برسوں کا یارانہ تھا، زندگیاں جڑی ہوئی تھیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے، ایک ہی کنوئیں سے پانی بھرتے تھے، زبان بھی ایک تھی اور بولی بھی، لباس بھی قریب قریب ایک جیسا تھا، کچھ فرق تھا پر خاص نہیں، مذہب البتہ ایک نہیں تھا اسی لئے عموماً آپس میں شادیاں نہیں کرتے تھے لیکن مائیں بہنیں سانجھی تھیں۔ گاؤں میں کسی مسلمان کی لڑکی جب کھیتوں میں نکلتی تو کیا ہندو کیا سکھ، سب آنکھیں نیچی رکھتے، یہی حیا مسلمانوں میں بھی تھی، اپنے ہندو یا سکھ محلے داروں کی بہو بیٹیوں کو اپنے گھر کی عورتوں کی سی تکریم دیتے تھے۔پھر سن 47ء میں بٹوارہ ہو گیا، ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ وہ جن کے مکان ساتھ ساتھ جڑے تھے، وہ جو خوشی غمی کے شریک تھے، وہ جو عید، بیساکھی اور دیوالی پر آپس میں مبارکبادیں دیتے تھے، وہ جن کی بہو بیٹیاں سانجھی تھیں....انہوں نے ایک دوسرے کے مکانوں اور دکانوں پر قبضے کر لیے، ایک دوسرے کو گھروں میں گھس کر کرپانوں اور تلواروں سے قتل کیا، ایک دوسرے کی عورتوں کو ریپ کیا، استاد نے شاگرد کی عزتیں پامال کیں، اُن بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جنہیں وہ کچھ عرصہ پہلے تک دھی رانی کہہ کر پکارتے تھے۔ 47ء میں بھی یہی ہوا، تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی انگریز سرکار کی رِٹ معدوم ہو گئی، کوئی پوچھنے والا نہ رہا، فسادات پھوٹ پڑے اور انسان کے اندر کا جانور باہر آ گیا۔ دس لاکھ انسان حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گئے اور ایک ایسے المیے نے جنم لیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ والٹن میں مہاجرین کا کیمپ دیکھ کر خود قائد اعظم سناٹے میں آگئے تھے۔ کہتے ہیں بدترین حالات میں بہترین ادب تخلیق ہوتا ہے، ہمارے ہاں یہ کام منٹو، ندیم، اے حمید، قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، انتظار حسین اور اشفاق صاحب نے کیا۔ ٹھنڈا گوشت میں نے بچپن میں چھپ کر پڑھا تھا، اُس وقت مزا آیا تھا، سمجھ نہیں آئی تھی، آج پڑھتا ہوں تو بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے:’’ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا:’جس مکان پر....میں نے دھاوا بولا تھا....اس میں سات....اس میں سات آدمی تھے....چھ میں نے....قتل کر دیئے....اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے....چھوڑ اسے....سُن....ایک لڑکی تھی بہت سُندر....اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔ کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بات پھر پھونک مار کر مونچھوں پر سے لہو اڑایا:’کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں کتنی سُندر تھی، میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا نہیں، ایشر سیاں، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ‘۔ کلونت کور نے صرف اس قدر کہا ’ہونہہ....‘‘
ایسے کتنے ہی المیے اِن عظیم لکھاریوں نے بیان کئے مگر گمان ہوتا ہے کہ ترازو پکڑ کر ظلم کی داستانیں بیان کی گئیں، ہندوؤں یا سکھوں کے ہاتھوں مسلمان عورتوں کے ریپ کا ذکر ہوتا تو ساتھ ہی ’’بیلنس‘‘ کرنے کے لئے ایک واقعہ مسلمانوں کا بیان کرنا بھی فرض ٹھہرتا۔ ایسا نہیں کہ مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا، مگر امر واقعہ یہ بھی ہے کہ بٹوارے کے وقت مسلمان عورتو ں کی زیادہ تعداد اُس حصے میں رہ گئی جو آج بھارت کہلاتا ہے۔ میرے والد صاحب جنہیں امرتسر سے عشق ہے، 1977میں پہلی مرتبہ زائرین کے ایک گروہ کے ساتھ بھارت گئے، پاکستانی گروپ کا لیڈر ایک ریٹائرڈ جج تھا جو اُس کمیشن کا سربراہ رہ چکا تھا جو بھارت میں مسلمان عورتوں کی بازیابی کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ ہم لوگ سرہند سے کوئی سو کلومیٹر دورایک قصبے میں گئے، وہاں ایک ہندو جو بطور معاون ہمارے ساتھ تھا، نے ہمیں بتایا کہ یہاں وہ کنوئیں بھی موجود ہیں جن میں کود کر مسلمان عورتوں نے جان دی تھی۔ جب ہم لوگ اُن کنوؤں کو دیکھنے گئے تو اُن میں سے کچھ بند ہو چکے اور کچھ کے اوپر پھول اُگ آئے تھے، ہم لوگ افسردہ حالت میں وہاں کھڑے رہے، اسی دوران وہاں کی رہنے والی چند عورتوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ چیخیں مار کر روتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئیں۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ خود میرے دادا جی نے بھی اپنی بیٹیوں کو یہی ہدایت کی تھی کہ اگر مکان پر سکھوں کا حملہ ہو تو قریب کے کنوئیں میں کود جائیں، کسی کے ہاتھ نہ آئیں۔ (کہیں کسی ارجن داس نے ایسی ہی کوئی ہدایت اپنی کملا دیوی کو بھی دی ہو گی)۔ والد صاحب کو اُس دورے میں ایک ’’سکھ‘‘ نوجوان ملا، اُسے جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ پاکستان سے آئے ہیں اور مسلمان ہیں تو اُس نے والد صاحب کو جپھی ڈالی اور کان میں کہا :’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ، الحمد للہ رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین!‘‘ کسی مسلمان گھر کا بچہ تھا جس کی مسلمان ماں اب ایک سکھ کے گھر تھی۔ ایک دل دہلا دینے والی بات وہ اور بتاتے ہیں کہ جب ہم وہاں تھے تو اکثر عورتیں ہم سے پوچھتیں کہ آپ میں سے کوئی فیصل آباد کا تو نہیں، تہاڈا تعلق چیچہ وطنی توں تے نئیں؟ یہ وہ خاندان تھے جن کے بھائی بہن ماں باپ پاکستان میں تھے اور وہ خود بھارت میں۔ ایک واقعہ اُس ریٹائرڈ جج نے سنایا کہ ایک مرتبہ انہیں پتہ چلا کہ ایک مسلمان عورت کسی خاکروب کے تصرف میں ہے، یہ وہاں پہنچے، غصے میں تھے، سو جاتے ہی ایک تھپڑ اُس خاکروب کے منہ پر جڑ دیا، وہ کچھ نہیں بولا، چپ چاپ اندر گیا اور ایک لڑکی کو دوپٹے میں لپیٹ کر واپس لایا اور اُن کے حوالے کرتا ہوا بولا ’’بیٹی، میں تمہاری جتنی حفاظت کر سکتا تھا میں نے کی، اب تم اپنے وارثوں کے حوالے‘‘ مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوؤں اور سکھوں کی لوٹ مار اور قتل عام کے بھی بے شمار واقعات ہیں، وزیر آباد میں ایساہی ایک واقعہ جو بچپن میں والد صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہاں ایک جگہ تھی جس کا نام گرو کوٹھا تھا جہاں ہندوؤں اور سکھوں نے پناہ لے رکھی تھی، مسلمانوں نے اُس جگہ کو آگ لگا دی، وہاں سے دھواں اٹھنے کا منظر میری دادی اور دوسرے سب لوگوں نے دیکھا، دکھ اور بے بسی کا عالم تھا، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔
آج بٹوارے کو ستّر برس ہو گئے۔ ہندوستان اور پاکستان اب دو علیحدہ ملک ہیں۔ آزادی کے ہر برس دونوں ملکوں میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں ضرور اٹھایا جاتا ہے کہ کیا تقسیم کی بنیاد درست تھی؟ کیا پاکستان کے مسلمانوں کو اِس کا فائدہ ہوا؟ وہ کیا پیمانہ ہو سکتا ہے جس کی بنیاد پر یہ پرکھا جائے کہ کہ پاکستان کا مسلمان آج ہندوستان کے مسلمان سے بہتر حالت میں ہے اور کیا ایسا کوئی پیمانہ ہونا بھی چاہئے یا نہیں؟ اِن سوالات کا جواب کسی دوسرے کالم میں۔ فی الحال کیا ہی اچھا ہو کہ ہم لاہور میں والٹن کے مقام پر ایک آزادی میوزیم بنائیں جہاں وہ تمام واقعات اور انسانی المیوں کی داستانیں محفوظ کر لیں جیسے دنیا میں جابجا یہودیوں نے ہولوکاسٹ میوزیم بنا کر کئے ہیں۔ شاید ایسے میوزیم کو دیکھ کر ہمیں احساس ہو پائے کہ جس ملک میں رہتے ہوئے ہم ہزار نقص نکالتے ہیں اُس ملک کو پانے کے لئے کتنی جانیں قربان ہوئیں اور کتنی عصمتیں لٹیں! اور شاید ایسا میوزیم دونوں اطراف کے اُن لوگوں کو بھی مجبور کردے جنہوں نے بٹوارے کے وقت قتل و غارت اور آبرو ریزی کی، کہ وہ سامنے آئیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں۔ آج تک آزادی کی جدوجہد کے دعویدار تو بہت سامنے آتے رہے ہیں مگر کوئی اپنے گناہ کا اعتراف کرنے سامنے نہیں آیا، نہ بھارت سے نہ پاکستان سے۔

تازہ ترین