• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دعوت پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے میڈیا ایڈوائزر سجاد انور نے پہنچائی، ’’آج رات 9بجے آصف زرداری صاحب اور بلاول بھٹو زرداری صاحب کی جانب سے دیئے گئے عشائیہ میں آپ مدعو ہیں‘‘ یہ بات بروز جمعرات مورخہ 17اگست کی! عشایئے میں پیپلز پارٹی کی نمایاں شخصیات بھی شامل تھیں، شیری رحمان، اعتزاز احسن، بشیر ریاض، قمر الزمان کائرہ، سینیٹر نیئر بخاری، سلیم مانڈی والا، رخسانہ بنگش، افضل چن اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے نام تو فوری ذہن میں آ رہے ہیں، لاہور کے سینئر اخبار نویسوں اور دانشوروں کی ایک متوازن تعداد بھی دیکھنے میں آئی۔ سابق صدر نے دعوتی ہال میں داخل ہوتے اور بیٹھتے ہی دس پندرہ منٹ تاخیر سے پہنچنے کی معذرت کی، بلاول ہائوس کی شہر سے بہت زیادہ دوری کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ دوری کے اس تذکرہ میں دراصل شرکائے صحافت کا خصوصی شکریہ شامل تھا۔
ظاہر ہے اس مجلس دانش و طعام میں ملکی حالات اور معزول وزیراعظم نواز شریف، پاکستان کی تاریخ، ذوالفقار علی بھٹو، بی بی شہید، پی پی اور ن لیگ کی سیاسی پارٹنر شپ اور سیاسی محاذ آرائی کی کہانی موضوع گفتگو رہے، ہر ایک نے ان پہلوئوں میں سے جس پہلو پر بھی اظہار خیال کیا وہ اس کے اپنے ذہنی نقشے کی نمائندگی تھی، البتہ یہ مجلس دانش و طعام غیر پیداواری نہیں رہی، با مقصد ایشوز پر بولا گیا بامقصد دلائل دیئے گئے، اختلاف رائے کے باوجود قومی اشتراک کے عمل کی ناگزریت کو تسلیم کیا گیا۔
عشائیے کے قومی اور سیاسی اسلوب کے تناظر میں سابق صدر اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے سامنے خاکسار نے بھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ عرض کیا گیا۔ ’’مسٹر پریذیڈنٹ!‘‘ آپ یہ انداز تخاطب قبول فرمائیں، پوری دنیا کے جمہوری رواج کے مطابق منتخب صدر تاحیات منتخب صدر ہی کے بزرگ قوی منصب پر فائز رہتا ہے ہمیں اسے اسی مقام پہ رکھتے ہوئے انہیں اپنے خیالات یا آراء پیش کرنی چاہئیں چنانچہ میں آپ کو ’’مسٹر پریذیڈنٹ‘‘ کے خطاب سے کہہ کر ہی اپنی بات شروع کر رہا ہوں۔ جناب! ہم اس وقت دو ایشوز تک محدود رہیں گے، ایک پیپلز پارٹی اور ایک ’’نواز شریف سے مکالمہ‘‘ ان دو حوالوں سے ہی مجھے آپ کے جواب کی ضرورت ہے، جواں سال چیئرمین بلاول بھی خود کو اس مکالمے میں شریک سمجھیں اور وہ عملاً بھی شامل ہیں!
جناب والا! یہاں اس مجلس میں پیپلز پارٹی بھی زیر بحث ہے، ’’مسٹر پریذیڈنٹ!‘‘ میرے لئے آپ کی شخصیت ہمیشہ محترم اور پسندیدہ ترین رہی ہے، بہرحال یہ موقع محل اس کے اسباب بیان کرنے کے نہیں البتہ پاکستان پیپلز پارٹی جس کے آپ چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین جس کے آپ شریک چیئرپرسن ہیں، کے سلسلے میں تاریخی باب کی یاد دہانی کراتے ہوئے اسے ریکارڈ پر رکھنے کا تسلسل سیاسی اخلاقیات کا اول و آخر تقاضا ہے۔
جناب والا! پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے قومی وجود کی حقانیت اور پاکستانی عوام کی عظیم خدمات کے باب میں کسی انسانی شہادت کی اصولاً ضرورت نہیں۔ یہ شہادت پاکستان کی دھرتی کے ذرے ذرے پر ثبت ہوتی ہوئی اس تختہ دار کی سرفرازی بن چکی ہے جس نے جان تو آنی جانی ہے کے محاورے کو اپنی ذات سے ہمیشہ کے لئے وابستہ کر لیا ہے۔ آپ پیپلز پارٹی کے وہ عظیم رہنما ہیں جس نے بی بی کی شہادت کے غم میں ڈوبے پاکستان کی عظمت کو سلام کیا، ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر حب الوطنی کو پاکستانیوں کی تقدیر بنا دیا، ایسی تقدیر جس کے آبشار میں ذات کے غم بہا دیئے جاتے اور نوعمر اولاد کے لئے ایک ہی وقت ماں اور باپ کا کردار اپنا لیا جاتا ہے،چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام، جمہوریت، آئین، قانون، عالمی برادری کے لئے اپنی بولتی تاریخ کے گواہ ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں، آج بلاول، آصفہ، بختاور اس ترازو میں تل رہے ہیں جس کے پلڑوں میں ان کے نانا، ان کے ماموں، ان کی نانی اور خود ان کی والدہ موجود ہیں، وہ اپنی سیاسی وراثت کے تاج کو کبھی داغدار نہیں کریں گے اب تک بھٹوز کے خون کا یہی اعلان اور یہی عہد ہے!
سو ’’مسٹر پریذیڈنٹ!‘‘ مملکت خداداد پاکستان اور اس کے عوام کی عدالت میں پاکستان پیپلز پارٹی، بانی قیادت سے لے کر آپ اور بلاول بھٹو زرداری تک سرخرو رہی ہے، یہ غیر متنازع ہے ملک کے عوام و خواص ہیں جنہیں اس رائے سے اتفاق نہیں، یقیناً وہ بھی کوئی کم تعداد نہیں مگر بی بی کی حد تک وہ بھی انہیں ’’متفقہ شہید‘‘ تسلیم کرتے ہیں، سوال دوسرا ہے، نواز شریف کے ساتھ مکالمہ ہونا چاہئے یا نہیں؟ خاکسار کی عاجزانہ رائے میں آپ اسے نواز شریف کے گزرے وقتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور بی بی کے ساتھ سلوک کی المناکیوں کے آئینے میں دیکھ کر اب واپسی پر تیار نہیں ہیں، اسے ایک لحظہ کے لئے ایسے ہی رکھ لیتے ہیں مگر کیا آپ کا یہ سچا ’’جواز‘‘ ان غیر جمہوری بالآخر ان غیر جمہوری قوتوں کی بے پناہ تقویت اور طاقت کا سبب نہیں بن جائے گا جنہوں نے 1958ء سے لے کر آج تک ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے ملکی اور عوامی وقار کے ساتھ کھلواڑ اور اس قومی نصب العین کو ناکام کرنے کا عزم کر رکھا ہے، پاکستان ان غیر جمہوری قوتوں کے اس ’’عزم‘‘ کے نتیجے میں دو لخت ہوا، جو باقی رہ گیا اسے ہر وقت سیاسی دھچکوں کے باعث اپنا ہر قدم رکاوٹوں کی پُر صوبت گھاٹیوں میں اٹھانا پڑ رہا ہے، شکر گزار ہوں آپ دونوں احباب نے عاجز کی معروضات صبر اور توجہ سے سماعت فرمائیں!‘‘
سابق صدر نے گو میرے احساسات کا نہایت احترام کیا مگر انہوں نے نواز شریف کے ساتھ رابطے اور مکالمے کی واپسی سے اتفاق نہ کیا، ہمیں اس معاملے کے مستقبل میں گنجائش کا دروازہ کھلا رکھنا چاہئے، بقول سابق صدر کے ’’سیاست میں کوئی بات آخری بات نہیں ہوتی!‘‘
چلتے چلتے راولپنڈی کے ’’بقراط عصر‘‘ کی جانب سے موجودہ نظام لپیٹنے کی خبریں ذہن میں لائیں اور ایک بار پھر ’’مارشل لا تقاضے‘‘ کی نوعیت اور اثرات کو افکار بھٹو کی روشنی میں یاد کر لیں، جناب بھٹو نے کہا تھا۔
جو مارشل لاء قابو میں نہ ہو، احتساب سے بالا ہو، وہ اپنی کمیت سے پُر اسرار اور آمرانہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں میں نے اسے ’’پاگل اور وہمی‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ متلون مزاج، وہمی اور جانبدار ہے۔ مارشل لاء کے پاس نہ اختیار ہوتا ہے نہ کردار، یہ عوام کی آواز نہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، یہ ایک ایسا قانون ہے جو بے قانون ہے اور اس کا ڈھانچہ اعتدال پسندی پر قائم نہیں، اس کے مقاصد کی معروضی اور غیر شخصی چھان بین نہیں کی جا سکتی، اس کا قیام غصے اور تعصب کی ریت پر ہے۔
مارشل لاء تو ایک ایسی شق ہے جو خود اپنے آپ سے شکست کھا جاتی ہے۔ مارشل لاء ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو اس سے مقابلے کے لئے درکار ہوں، یہ خود وہ زہر تیار کرتا ہے جس کی اسے مارنے کی ضرورت ہو۔ یہی مارشل لاء کی حقیقت ہے۔ یہ فرنیکشن کا دیو ہے۔ یہ احتیاط نہیں بلکہ لعنت ہے۔ ایک ایسی ظالمانہ مشینری جس پر کوئی احتساب نہ ہو، عرف عام میں ایک ایسی مشینری ہے جو عوام دشمنی پر مبنی ہو، عوام دشمنی ہونے کی حیثیت سے یہ آخر کار خود اپنا دشمن ہے، یہ خود اپنی تباہی کے بیج بوتا ہے۔ یہ مارشل لاء کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے اور اپنے ساتھ عوام کو بھی لے ڈوبتا ہے۔

تازہ ترین