• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ زبردست داخلی بحرانوں کا شکار ہیں ۔وہ صدارتی الیکشن میں مثالی انتخابی کامیابی دلوانے والے افراد کو اہم عہدوں پر تعین کرنے کے بعد اب ایک ایک کرکے بہت سوں کو ’’فائر‘‘ بھی کررہے ہیں۔ امریکی عوام بالخصوص وسکانسن، پنسلوانیا اور مشی گن کی ڈیموکریٹ اکثریت کی ریاستوں کو ری پبلکن اکثریت میں تبدیل کرنے والے ٹرمپ اب مقبولیت کھو رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال سے پریشان صدر ٹرمپ نے خارجی محاذ پر شمالی کوریا کے حکمرانوں کے ہاتھوں بھی پریشانی کا سامنا کیا اور اب اپنی صدارت کے 212دن مکمل ہونے پر نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ وہائٹ ہائوس کی بجائے انہوں نے قریبی فوجی بیس سے امریکی عوام اور امریکی فوجیوں کو اپنے پہلے ’’پرائم ٹائم‘‘ خطاب میں نظرثانی شدہ افغان پالیسی کے بارے میں اعلان کیا ہے جس میں سب سے زیادہ دبائو امریکہ کے پرانے اتحادی پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے گا اور فرنٹ لائن رول بھارت، امریکہ اشتراک پر مبنی ہوگا۔ میری معلومات کے مطابق اب 212ایام میں پس پردہ وہ تمام تیاریاں اور انتظامات مکمل کئے گئے ہیں جو افغانستان میں نئی جنگ کے لئے ضروری تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اب فروغ اورا ستحکام جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ صرف دہشت گردوں کے قتل اور خاتمے کا مشن رکھتا ہے افغانستان کو بھی اس جنگ میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے ماضی میں پاکستان کے امریکہ سے تعاون اورقربانیوں کا اعتراف تو کیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی الزام لگایا کہ پاکستان میں ان دہشت گردوں کو پناہ بھی دی گئی ہے جو ہمارے امریکیوں کو قتل کرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالرز دیئے ہیں۔ اب ہم افغانستان میں بھیجے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کا اعلان نہیں کریں گے بلکہ جیت اور کامیابی کیلئے جتنی ضرورت ہوگی بھیجیں گے اور فیلڈ میں موجود کمانڈروں کو واشنگٹن سے کنٹرول کرنے کی بجائے مقامی کمانڈروں کو کامیابی کے لئے ایکشن کی کھلی چھوٹ ہوگی۔ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پھرا س بات کا ذکر کیا یہ ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیں گے۔ پاک ۔ بھارت کشیدگی اور اختلافات کا ذکر تو کیا لیکن حل کا ذکر اور نہ ہی زور دیا۔ عراق میں کی گئی غلطیاں اب امریکہ افغانستان میں نہیں دہرائے گا اور امریکہ اپنی عالمی برتری کے تمام عوامل یعنی ڈپلومیسی، فوجی طاقت اور انٹلیجنس کا بھرپور استعمال کرکے اپنی جیت کو حاصل کرےگا ۔ ہم پاکستان کے بارے میں خاموش نہیں رہیں گے وہ دہشت گردوں کی حمایت نہ کرے تقریباً نصف گھنٹہ کی اس تقریر کا ابتدائی تجزیہ یہ واضح کررہا ہے کہ پاکستان پر نہ صرف امریکہ اپنا دبائو بڑھائے گا بلکہ بھارت کو بھی دبائو ڈالنے کی حمایت کرے گا۔ 20ایسی تنظیموں کا ذکر ٹرمپ نے کیا جو ان کے مطابق دہشت گرد ہیں مگر افغانستان اور پاکستان میں موجود اور سرگرم ہیں۔ صدر اوباما کے دور میں بھی پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ اور پاکستانی حمایت کا الزام لگایا گیا۔ اسی طرح صدر اوباما کے دور میں ہی پاکستان کی امداد 60فیصد کم کر دی گئی تھی مگر پاکستان اس امریکی پالیسی کے باوجود ان الزامات کو مسترد کر رہا ہے اور ڈٹا ہوا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کے پاس کوئی نئی چوائس نہیں سوائے بھارت کو خطے میں اور افغانستان میں رول ادا کرنے کی حمایت کی۔ میری رائے میں پاکستان پر صدر ٹرمپ نے اپنا آخری کارڈ بھارت کو آگے لا کر استعمال کرلیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں امریکہ کے پاس اتنے زیادہ نہیں بلکہ بڑے محدود اور حساس آپشنز ہیں اگر پاکستانی قیادت اپنے داخلی بحران پر قابو پاکر قوم کو متفق اور متحرک انداز میں منظم کرلے تو پاکستان نہ صرف اس مشکل وقت میں خود کو کھڑا رکھ سکتا ہے بلکہ اپنے بارے میں امریکی موقف کو بھی تبدیل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے مزید امریکی فوجی مع تمام جنگی اسلحہ و حکمت عملی افغانستان بھیجنے کی منظوری دیدی ہے جبکہ سرکاری اعلان کے مطابق تقریباً 9ہزار امریکی دستے پہلے ہی افغانستان میں موجود ہیں بلکہ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر تعلیم اور ٹرمپ کی انتخابی مہم میں 200ملین ڈالرز سے زائد کے فنڈ جمع کرنے والی خاتون بیٹی ڈیوس کے بھائی اور عالمی شہرت یافتہ کمپنی ’’بلیک واٹر‘‘ کے سربراہ ایرک پرنس کے تازہ بیان کے مطابق افغانستان و پاکستان میں 28ہزار کنٹریکٹرز جنہیں کرائے کے فوجی کہنا مناسب ہوگا وہ افغانستان میں مقیم اور اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اب ’’بلیک واٹر‘‘ کی بجائے فرنٹیئر سروسز گروپ کے نام سے وہ امریکہ کے سابق فوجیوں اور سیکورٹی ماہرین کو دنیا کے دوسروں ملکوں میں امریکی مفادات و مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ’’ریمنڈڈیوس‘‘ بھیجتے ہیں۔ ایرک پرنس نے صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈکشنر کی حمایت سے ٹرمپ کو تجویز دی ہے کہ امریکہ ان کی کمپنی کو صرف 10ارب ڈالرز کا معاوضہ دے تو وہ مزید 5ہزار اپنے ملازمین افغانستان اور پاکستان بھیج کر نہ صرف طالبان کا صفایا کر دے گا بلکہ امریکہ کے تمام جنگی اہداف بھی حاصل کرکے دے گا۔ اور ٹرمپ حکومت مزید فوج کے اخراجات، اموات اور نقل مکانی وغیرہ کی مالی اور سیاسی ذمہ داریوں سے بھی بچ جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے مزید 4ہزار فوجی بھیجے ہیں جن کا ایک مشن یہ بھی ہے کہ ’’پاکستان کو تیزی سے دھکیل کرکے دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے سے روک دیں‘‘۔ کیا خوب ہے کہ 15سال تک 783ارب ڈالرز خرچ کرکے بھی ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج تمام جدید ترین آلات و ہتھیاروں کے باوجود افغانستان کو دہشت گردی سے نجات نہیں دلاسکی بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھی دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں لیکن امریکی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان کو ہی موردالزام ٹھہراتےہیں ۔ 15سال کے اتحادی کردار کے باوجود پاکستان اپنے اتحادی امریکہ کے ہاتھوں سزا اور الٹے الزامات کا حقدار قرار دیا جارہا ہے۔ اس صورتحال کی زیادہ ذمہ داری امریکہ پر نہیں بلکہ پاکستان کے اُن نااہل اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور اپوزیشن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے فیصلوں، اقتدار کےلالچ اور غیروں کے ایجنڈےکی تعمیل کے لئے پاکستانی سرزمین او رعوام کو دوسروں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔
ٹرمپ کی بیان کردہ افغان پالیسی کی تفصیل، تشریح اور تعمیل کے اتار چڑھائو کے دوران پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکل صورتحال سے یوں گزرنا ہوگا (1) پاکستان پر دبائو میں اضافہ بلکہ کسی ممکنہ جنگ کے لئے بھارت کو امریکہ اپنے ’’فرنٹ لائن‘‘ اتحادی کے طور پر نہ صرف استعمال کرے گا بلکہ افغانستان کی قیادت سے بھی تعمیل کروائے گا۔ بھارت جنوبی ایشیا میں امریکہ سے تعاون کی پوری قیمت وصول کرے گا اور شیئر بھی حاصل کرے گا۔ (2)سی آئی اے اور امریکی انٹیلی جنس ادارے اور اسپیشل آپریشنز کا رول اور زور افغانستان، پاکستان سمیت بڑھ جائے گا۔ وسطی ایشیا کے ممالک بھی متاثر ہونگے۔ ماسکو اور بیجنگ کا ردعمل اور رول بھی متوقع ہے۔ (3) بھارت ٹرمپ کی افغان پالیسی کا کلیدی علاقائی اتحادی بننے کی تیاری کرچکا ہے اور نریندر مودی کے دورہ اسرائیل سے بھی قبل بھارتی را اور اسرائیلی موساد کے درمیان رابطوں اور تعاون کا سلسلہ قائم ہوچکا ہے۔ (4) امریکہ کے اتحادی اور امریکی دفاعی اسلحہ اور تربیت سے لیس پاکستان کے بارے میں امریکی اور بھارتی انٹیلی جنس کے درمیان معلومات کا تبادلہ بھی جاری ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو چین، پاکستان اور افغانستان کے بارے میں کسی ایسےامریکی دبائو کا شکار نہیں بنائے گا جس طرح افغان جنگ کے دوران 14برس تک پاکستانی حکمرانوں سے امریکی دبائو اور مطالبات منوائے گئے ہیں مگر بھارت کو بھی پاکستان کی طرح اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ (5) صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی میں ایک یہ مفروضہ بھی شامل ہے کہ افغانستان میں معدنی وسائل کے ذخیرے ایک ٹریلین ڈالرز سے بھی زیادہ موجود ہیں اور افغانستان میں ہونے والے موجودہ اور مستقبل میں جنگ کے اخراجات کی ریکوری ممکن ہے۔ (6) پاکستان پر دبائو میں اضافہ کیلئے امریکہ پاکستان کو ان واجبات کی ادائیگی سے بھی انکار کررہا ہے۔ جوکو الیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنے وسائل سے خرچ کئے ہیں اور سمجھوتے کے مطابق امریکہ کو یہ واجبات ’’ریفنڈ‘‘ کرنا ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنی نئی پالیسی میں کوئی ایسی نئی بات یا نیا مطالبہ نہیں کیا جواس سے قبل اوباما دور میں پاکستان سے نہ کیا گیا ہو۔ اس نظرثانی شدہ پالیسی کے بارےمیں جو ابتدائی خبریں، کنفیوژن، اختلاف رائے کی خبریں آرہی تھیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ بھارت کے تمام تر تعاون کے باوجود پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ کے لئے افغان جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے۔ بھارت اس نئی امریکی پالیسی کا فائدہ اٹھا کر برصغیر کی جغرافیائی تاریخ کو ازسرنو لکھنے کا خواہشمند ہے اور مودی اکھنڈبھارت کا نعرہ لگانا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے سیاستدان اور معاشرہ ذمہ داری کا ثبوت دے تو پاکستان ٹرمپ کی نئی پالیسی سے پیدا شدہ مشکلات سے نکل کر اس نئے دبائو کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ ثابت قدمی، انسداد دہشت گردی اور قومی وحدت کے ساتھ پاکستان اس مشکل مرحلہ کا سامنا بھی بآسانی کرسکتا ہے۔

تازہ ترین