• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ،موجودہ اسمبلی سے62،63میں ترمیم کی منظوری انتہائی مشکل

اسلام آباد( طاہر خلیل) موجودہ قومی اسمبلی سے آرٹیکل 62،63 میں ترمیم کی منظوری انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوگا، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اوردیگر اپوزیشن جماعتوں کی شمولیت کے بغیر کوئی آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہوبھی جاتی ہے تو سینٹ اسے بلاک کردے گا اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی تجویز اس حد تک مناسب تھی کہ قومی اسمبلی نہ آنے والے وزراء کو سز ادی جائے اور جب بھی وہ ایوا ن میں آئیں انہیں سزا کے طورپر کھڑا رکھا جائے، ان کے ذہن میں سزا کا تصور اس وقت ابھرا جب قومی اسمبلی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے لمحات سے گزر رہی تھی،342 رکنی ایوان میں بمشکل 100 سے بھی کم اراکین موجودتھے جبکہ فوج ظفر موج کے باوجود وزراء کی صفوں کی صفیں خالی پڑی تھیں،اس افسوسناک پہلو کے باوجود اہل پاکستان کے لئے یقیناً یہ مسرت وانبساط کاموقع تھاکہ ملک میں پھیلائی جانے والی موجودہ افراتفری، پولیٹیکل پولا رائزیشن اورپارلیمنٹ سے بے نیازی کے منظرنامے کے تناظر میں عام انتخابات کو منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے چالیس سال بعد متعارف کرائی جانے والی اصلاحات پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں، انتخابی قوانین کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے قومی اسمبلی نے 19 جون 2014 کوپارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی غرض سے قرار داد کی منظوری دی اور پھر جولائی 2014 میں ایوانوں کی مشترکہ انتخابی اصلاحات پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی، ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے کہ ہر الیکشن کے بعد شکست کھانے والی جماعتوں نے کامیاب پارٹی پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے، تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے پارلیمنٹ کا مجموعی ماحول متاثر ہوا تو انتخابی اصلاحات پر بھی کوئی نمایاں پیشرفت نہ ہوسکی۔پاکستان کے انتخابی کلچر میں سرمایے کی ریل پیل اور سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بہت سی خرابیاں در آئی ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ جماعتوں کی تعداد340 ہے اس میں مسلم لیگ کے نام سے 20 جماعتیں رجسٹرڈ ہیں،2018 کے انتخابات میں 33 نئی سیاسی جماعتیں حصہ لیں گی۔ 2013 کے انتخابات میں 270 میں سے 147 سیاسی پارٹیوں نے انتخابی نشانات حاصل کئے ان میں سے 111 جماعتوں نے حصہ لیا اور صرف 18 جماعتیں ہی نمائندگی کے لئے اسمبلیوں میں پہنچ پائیں۔

قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اب تک سیاسی جماعت کی تشریح ہی نہیں کرسکا۔ نئے بل میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں بھی کئی ترامیم شامل کی گئی ہیں سیاسی اور انتخابی عمل میں خواتین کی جوملکی آبادی کا 51 فیصد ہیں بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کےلئے کئے گئے اقدامات کو بنظر تحسین دیکھنا چاہیے کیونکہ ماضی قریب کے کئی ضمنی انتخابات میں خیبرپختونخواکے بعض حلقوں میں سیاسی پارٹیوں نے معاہدہ کرکے یا بااثر قبائلی عمائدین نے جرگے کے ذریعے خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا تھا، مستقبل میں اس صورتحال کے ازالے کےلئے موجودہ انتخابی اصلاحات میں کہاگیا کہ جس حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو الیکشن کمیشن تحقیقات کے بعد متعلقہ حلقے کے الیکشن کو کالعدم قراردے گا۔حکومت کا تازہ اعلان آئین کے آرٹیکل62،63 میں ترمیم سے متعلق ہے، وزیر قانون کاکہنا ہے کہ محولہ آرٹیکلز میں سزا کی مدت کا تعین نہیں اور نا اہلی کی سزا پانچ سال سے کم ہونی چاہیے، وزیر قانون کوسجدہ شکر بجالاناچاہیے کہ سیاسی جماعتوں نے بعض ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر انتخابی اصلاحات کے مسودے کی منظوری دی،  نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملک میں سیاسی ٹمپریچر میں اضافے سے سیاسی تقسیم بھی تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، اس ماحول میں موجودہ قومی اسمبلی سے آرٹیکل 62،63 میں ترمیم کی منظوری انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوگا، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اوردیگر اپوزیشن جماعتوں کی شمولیت کے بغیر کوئی آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہوبھی جاتی ہے تو سینٹ اسے بلاک کردے گا،مقام حیرت ہے کہ بعض حکومتی زعما انتخابات کے انعقاد میں یکسوئی پیدا کرنے کی بجائے متنازع امور میں الجھ کر قوم کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بن رہے ہیں انہیں نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیے بقول مزمل رشید شاد ، میں جن کے سائے میں بیٹھا تھا، وہ پیڑ کیسے بدل گئے ہیں کہ ان کی چھائوں ہے دھوپ جیسی۔

تازہ ترین