• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ما ں کا دودھ بحپو ں کی بہتر ین نشوونما بیشما ر بیماریوں کے علاج کےلیے ضروری ، میر خلیل الرحمن سوسائٹی کا سیمینا ر

لاہور (رپورٹ ایم کے آر۔ ایم ایس) پیدائش کے پہلے 6 ماہ اور 2 سال تک صرف ماں کا دودھ بچے کی بہترین غذا ہے۔ ماں کا دودھ بچوں کو غذائی قلت اور موٹاپے سے بچاتا ہے ۔  ماں کا دودھ بچوں کی بہترین نشوونما اور بےشمار بیماریوں کے علاج کیلئے انتہائی  ضروری ہے۔ گرمی کے موسم میں بھی بچے کی غذائی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

بوتل کے دودھ کے مقابلے میں ماں کا دودھ کم خرچ ہوتا ہے اور یہ بچوں کو بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) ، پالیسی اینڈ اسٹریٹجک پلاننگ یونٹ C(PSPU) پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ آئی آر ایم این سی ایچ پروگرام، یونیسف اور ورلڈ بینک کے تعاون سے ہونے والے ’’گلوبل بریسٹ فیڈنگ ویک سیمینار 2017‘‘ میں کیا۔مہمانان خصوصی ڈاکٹر نجمہ افضل ایم پی اے، بشریٰ بٹ، ایم پی اے علی جان خان (سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب تھے۔

گیسٹس آف آنر میں اے جی ڈی، پی ایس پی یو، ڈاکٹر ندیم ذکاء، کنسلٹنٹ پیڈیا ٹرلین میو ہسپتال، پروفیسر ڈاکٹر قاضی یعقوب، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ میڈیکل یونٹIII چلڈرن اسپتال لاہور، پروفیسر ڈاکٹر جنید رشید، پروفیسر آف گائنی سروسز اسپتال ، پروفیسر ڈاکٹر روبینہ سہیل، پروفیسر آف گائنی، ہیڈ آف گائنی ڈیپارٹمنٹ سرگنگا رام اسپتال پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں، چلڈرن اسپتال ڈاکٹر عرفان وحید، پروفیسر آف گائنی سروسز ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر طیبہ وسیم، ڈاکٹر ناصر APNA USA ڈاکٹر مبشر چوہدری ایم ایس لیڈی ایچی سن اسپتال ڈاکٹر ثمینہ نصیرالدین اور ڈاکٹر اختر رشید شامل تھے۔حرف آغاز پروگرام ڈائریکٹر پی ایس پی یو محمد خان رانجھا نے پیش کیا۔میزبانی کے فرائض واصف ناگی چیئرمین میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی نے سرانجام دیئے۔ تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول کی سعادت محمد خلیق حامد قادری نے حاصل کی۔

علی جان خان نے کہا کہ دنیا میں بریسٹ فیڈنگ ریٹ بڑھ رہا ہے مگر پاکستان میں کم ہے۔ پنجاب میں ہیلتھ کو چار مسائل کا سامنا ہے۔ جب سوسائٹی میں تبدیلی آ رہی ہوتی ہے اور لوگوں کا اس میں تعاون نہ ہو تو یہ تبدیلی کبھی بھی مثبت اثرات نہیں لاتی۔ انہوں نے کہا کہ انفینٹ موریلٹی اور میٹرنل موریلٹی بہت زیادہ ہے اور اس کے دو آئوٹ ہٹ انڈی کیئر ہیں۔ پوری دنیا میں جب ہیلتھ پرفارم منعقد ہوتی ہیں تو وہاں پر ہیلتھ آسٹرکچر پر بات نہیں کی جاتی ہے بلکہ جو ڈیٹا ہوتا ہے اس کو بدنظر رکھا جاتا ہے۔

اس وقت 55 Neonantal rate فیصد کے قریب ہے جبکہ ایمیونائزیشن ریٹ 82کے قریب ہے۔پاکستان میں ہیپاٹائٹس کا مرض بہت زیادہ ہے اور اہم اس حوالے سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ نیوٹریشن کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے اور ہر دوسرا بچہ Stunted نیو ٹریشن ریٹ اس وقت 38%ہے۔ اب خواتین ورک فورس کا حصہ بن رہی ہیں، مختلف ڈے کیئر سنٹرز کا قیام بھی عمل میں آ رہا ہے۔ اس تمام کام کرنے کے لئے کافی محنت درکار ہے۔ اب بریسٹ فیڈنگ کا ٹرینڈ کم ہو رہا ہے اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔محمد خان رانجھا نے کہا کہ ہیلتھ کا موضوع بہت وسیع ہے۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے اس حوالے سے کام ہو رہا ہے اور ان کے تعاون سے چار بلین کا پی سی ون چل رہا ہے۔

آگاہی کے ذریعے لوگوں کوصحت کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے مطلع کیا جا سکتا ہے۔ اب بریسٹ فیڈنگ رولز بن چکے ہیں اور تھوڑے سے وقت میں محکمے نے کافی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو اپنی خوراک پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحت کے حوالے سے پنجاب میں جو کام ہورہا ہے، وہ دوسروں کے لئے ایک ماڈل ہے۔اس وقت انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ پارٹنرز سے بھی بہت اچھا فیڈبیک مل رہا ہے۔ڈاکٹر ندیم ذکا نے کہاکہ کسی بھی ملک کے اسٹیٹس کا وہاں کے مورائیلٹی ریٹ سے پتہ چلتا ہے اور کافی عرصہ سے ہمارے انڈی کیٹرز اتنے اچھے نہیں ہیں۔ نیوٹریشن اور غذائی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے اور ہمارے ملک میں بریسٹ فیڈنگ ریٹ بھی کم ہورہا ہے۔

گورنمنٹ اس حوالے سے کافی اقدامات کر رہی ہے اور بریسٹ فیڈنگ رولز بنائے جا رہے ہیں لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے خواتین میں آگاہی بیدار کی جائے۔ دنیا بھر میں اگست کے مہینے میں بریسٹ فیڈنگ ویک منایا جاتا ہے اور یہ سیمینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔بشریٰ بٹ نے کہاکہ حکومت پنجاب مائوں اور بچوں کی صحت کے لئے کافی اقدامات کر رہی ہے۔ ان سب چیزوں میں آگاہی کا بہت عمل دخل ہے۔ آگاہی کے بغیر تمام اقدامات بے مطلب ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک عورت ماں پہلے ہے۔ اب تو مختلف ڈے کیئر سنٹرز بن چکے ہیں۔

بعض اوقات اپنی آسانی کیلئے خواتین بچوں کو فارمولا دودھ پلاتی ہیں لیکن جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان کے نتیجے میں ہم مثبت تبدیلی کی طرف جا رہے ہیں۔ڈاکٹر نجمہ افضل نے کہاکہ بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے ہم نے 2030تک اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ اس حوالے سے تمام ادارے کافی محنت کر رہے ہیں۔ انفیکشن اور پری میچورٹی کے باعث اموات کی شرح نومولود بچوں کی بڑھ رہی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں اس حوالے سے پیغام دینے کی ضرورت ہے۔

ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بچوں میں وقفہ نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہاکہ عوام میں آگاہی پیدا کرنا صرف اداروں کا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس میں تمام افراد کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ڈاکٹر اختر رشید نے کہاکہ ہمارے ملک میں پچاس فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت کے لئے عورت کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ اس میں ذرائع ابلاغ کا بہت اہم رول ہے۔ پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ ریٹ کم ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت اسکولز اوراسپتالوں میں نوکری کرتی ہے جس کے باعث ان کو بریسٹ فیڈنگ میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ واصف ناگی نے کہاکہ اگست کے مہینے میں گلوبل بریسٹ فیڈنگ ویک منایا جا رہا ہے۔

یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ تحقیق کے مطابق وہ خواتین جو چھ ماہ  تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں ہر قسم کے کینسر سے موت کا خطرہ 10فیصد کم ہوجاتا ہے۔ محکمہ صحت کی طرف سے اس حوالے سے کافی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر ناصر نے کہاکہ ایگزیکٹو بریسٹ فیڈنگ دو سال تک صرف ماں کا دودھ پلانا، پیدائش کے فوراً بعد اور چھ ماہ تک ماں کا دودھ پلانا کو پروموٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارا سب سے اہم مقصد بریسٹ فیڈنگ کو پروموٹ کرنا ہے۔

اس پر کام کرکے ہیلتھ انڈی کیٹرز کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سب میں مختلف اداروں کی مدد کی ضرورت ہے جیسا کہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن، فوڈ اتھارٹی، پیمرا وغیرہ۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو فارمیسی کو چیک کرنا چاہیے، پیمرا کو اشتہارات کو دیکھنا چاہیے، پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کو پبلک اور پرائیویٹ ہیلتھ کی سہولیات کو دیکھنا ہے۔

تازہ ترین