• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بڑے قومی مکالمے سے ہٹ کر بڑی سودے بازی پر جمی نظریں، پارلیمنٹ گیلری سے

Todays Print

اسلام آباد (رپورٹ: فصیح الرحمٰن خان) ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں گریزاں دکھائی دینے کے باوجود آئینی ترامیم کی شکل میں کسی ممکنہ بڑی سودے بازی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں چاہے کسی بڑے قومی مکالمے کا امکان باقی نہ رہے۔ تاہم ابتدائی اندازوں کے مطابق سول، ملٹری تعلقات کی اپنی نرالی نوعیت کے باعث ’’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ‘‘ وقوع پذیر ہی نہ ہو اور عدلیہ بھی خود کو اپنے پابند آئینی کردار تک محدود رکھے۔ جہاں تک ضروری آئینی ترامیم درکار ہیں، جیسا کہ آئین کے آرٹیکلز 62، 63 میں ترامیم، مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم ہو جو پیپلزپارٹی کا اپنا مقصد بھی ہے اور مستقبل میں نگراں حکومتوں کے انتخاب کے لئے وسیع تر پارلیمانی نظام جو تحریک انصاف کی خواہش ہے۔

اس حوالے سے پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے موقع پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان زیریں کو آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں ترامیم لانے کے ارادے کا اظہار کیا جس کا قدرتی طور پر فائدہ نوازشریف کو پہنچے گا جنہیں پاناما کیس فیصلے کے تحت تاحیات پابندی کا سامنا ہے۔ حکومت کی نظریں ایسی کسی پابندی کو 5 سال تک محدود رکھنے پر ہیں لیکن اس کا تمام تر انحصار اور دارومدار سودے بازی اور مذاکرات پر ہے جس میں ہفتوں بلکہ مہینوں لگ سکتے ہیں جبکہ موجودہ قومی اسمبلی کی میعاد میں 8 سے 9 ماہ رہ جاتے ہیں۔ منگل کو اپنی پریس کانفرنس میں دانیال عزیز نے بتایا کہ اس حوالے سے پس پردہ رابطے اور کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی قابل عمل آئینی پیکیج طے پاتا ہے؟ جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے قابل قبول ہو۔ جیسا کہ ہر سیاسی جماعت نمبر بنانا چاہتی اور میڈیا کی لہروں کے دوش پر رہنا چاہتی ہے لیکن سیاست بھی اپنے طور غیریقینی نوعیت کی حامل ہے۔ منگل کو انتخابی اصلاحات کو قومی اسمبلی سے منظوری میں دو سال کا عرصہ لگ گیا لیکن یہاں بھی تحریک انصاف نے بیرون ممالک یا سمندر پار پاکستانیوں کے لئے ووٹنگ طریقہ کار کے حوالے سے اس کے مطالبات نہ ماننے پر حتمی مرحلے کا بائیکاٹ کیا۔

تحریک انصاف حتیٰ کہ یہ بھی چاہتی تھی کہ سیاسی جماعتوں کی غیرملکی فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کی نگرانی کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن یہ باتیں تسلیم نہ کئے جانے پر مایوس ہو کر تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان سے واک آئوٹ بھی کیا۔ لیکن آج کل اس کا مشکل ہی سے کوئی اثر ہوتا ۔ تحریک انصاف کو اس حوالے سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ سے سیکھنا چاہئے جو اس چار سال کے عرصہ میں کارروائی میں عدم دلچسپی پر سرکاری بنچوں کے ارکان اور وزراء کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں خورشید شاہ کا کردار کلاس مانیٹر جیسا ہوتا ہے۔ منگل کو ایوان میں سرکاری بنچوں پر حاضری مایوس کن رہی۔

50 یا اس سے زائد وزراء میں سے صرف چار یا پانچ ہی حاضر رہے۔ پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والوں کی اکثریت بھی نہیں آئی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی معزول وزیر اعظم نوازشریف سے ملنے لاہور چلے گئے جبکہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار پر برا وقت آیا ہوا ہے، ان کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔

تازہ ترین