• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کا موقف کھل کر سامنے آچکا ہے۔ویسے تو امریکہ کا حالیہ موقف کوئی نیا نہیں ہے۔جون 2017میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے واشنگٹن نے پاکستان کی 350ملین ڈالر کی امداد بھی روک لی تھی۔ٹرمپ کے حالیہ پالیسی بیان کے بعد یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ افغانستان اور بھارت کاموقف درست مان لیا گیا ہے۔سفارتی طور پر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔عقلمند انسان وہ ہوتا ہے جو ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کرے۔دوسروں پر ملبہ ڈالنا بہت آسان ہوتا ہے۔امریکہ کبھی بھی ہمارا ہمدرد نہیں ہوسکتا،مگر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس ساری صورتحال سے بچنے کیلئے کیا اقدامات کئے۔کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک مرتبہ پھر مات کھا گئی؟ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان مخالف کہہ کر حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ آج ہمیں اپنی خامیوں اور غلطیوں کا بھی تعین کرنا ہوگا۔
آج2017کا پاکستان خطے میں تنہا کھڑا نظر آتا ہے۔ بحیرہ عرب کے علاوہ ہمارا کوئی دوست ہمارے اردگرد نہیں ہے۔سی پیک کی وجہ سے چین سے تعلقات مثالی ضرور ہیں مگر کمزور دوست کو سب بوجھ سمجھتے ہیں اور آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔امریکہ ہم سے سات سمندر دور ہے۔اس سے تعلقات یا اختلافات پر بات نہیں کرنا چاہتا۔لیکن جن ہمسائیوں سے ہمارے بارڈر لگتے ہیں،کیا وہ ہمارے دوست ہیں؟ ایران وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا؟ چند خلیجی ممالک کی خواہشات کی وجہ سے ایران سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے۔آج خلیج ممالک سے بھی ہمارے تعلقات سب کے سامنے ہیں۔افغانستان سے ہمارے مثالی تعلقات رہے ہیں۔وطن عزیز نے ہمیشہ افغان بھائیوں کو اپنی آغوش میں پناہ دی ہے۔افغان قوم کی پوری ایک نسل پاکستان میں جوان ہوئی۔مگر 9/11کے بعد کابل کے باسیوں کو ڈالر اور بھارتی مراعات نے سب کچھ بھولنے پر مجبور کردیا۔افغان بھائیو ں کے مزاج بدل گئے۔حامد کرزئی اور اب اشرف غنی جیسے افغان لیڈران جنہیں ہمیشہ پاکستان نے نہ صرف پناہ دی بلکہ مکمل سپورٹ کیا۔آج ہمارے بدترین مخالف ہیں۔غلطیاں ہماری بھی ہیں۔ ہمیں چاہئےتھا کہ امریکی ڈالرز اور بھارتی مراعات کے بعد اپنے رویے میں تبدیلی لاتے اور افغان ارباب و اختیار کو ایک گریڈ18کے باوردی افسر سے کنٹرول کرنے کے بجائے برابری کا پروٹوکول دینا شروع کردیتے۔جو کام ہم نے نہیں کیا وہ بھارت نے کرنا شروع کردیا۔ہم سے بڑی معیشت اور ہم سے زیادہ مضبوط ملک کے وزیراعظم نے جب افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کیں تو پھر افغانستان ہمارے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوگیا۔آج افغانستان اور بھارت ہمارے لئے ایک سے بن چکے ہیں۔چند ماہ قبل ایک کالم میں لکھا تھا کہ افغانستان سے ہمارے تعلقات کا براہ راست انحصار بھارت کے ساتھ تعلقات پر ہے۔مگر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔افغانستان اور بھارت کے معاملے پر ہمارے اداروں کا موقف اپنی جگہ مگر ٹرمپ انتظامیہ کی آمد کے بعد ہمیں ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرنا چاہئےتھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اگر ہم نے افغانستان اور بھارت سے کشیدگی کم کر کے بہتر تعلقات کا آغاز کیا ہوتا تو شاید ٹرمپ انتظامیہ کا حالیہ بیان سامنے نہ آتا۔پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔الزام میں صداقت ہے یا نہیں مگر ہمارے ہمسایہ ممالک نے نہایت خوبصورتی سے یہ الزام پوری دنیا کو باور ضرورکرادیا ہے۔آج کی صورتحال سے بچنے کا واحد طریقہ تھا کہ ہم اپنی انا کو پس پشت ڈال کر افغانستان سے بہتر تعلقات بحال کرتے۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چونکہ مسلمانوں کے خلاف ہے،اس لئے افغانستان اور بھارت کے موقف کو تقویت دی گئی ہے۔تو آج ہمارا حامی کون ہے؟ ہم اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تنہا کھڑے ہیں۔کسی بھی معاملے سے آنکھیں بند کرکے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ افغانستان اور سعودی عرب بھی مسلمان ممالک ہیں۔مگر ٹرمپ انتظامیہ کا ان کے حوالے سےرویہ سب کے سامنے ہے۔آج غلط یا صحیح کی بات نہیں ہورہی بلکہ ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز کے لئے کیا صحیح تھا اور کیا غلط۔بہت سارے مقامات پر غلط چیز کو برداشت کرکے کامیابی حاصل کی جاتی ہےمگر ہم اصولوں پر ڈٹ کر ناکام ہوتے ہیں۔خارجہ پالیسی میں کبھی کوئی بات حتمی نہیں ہوتی،کوئی بھی اصول دائمی نہیں ہوتا۔ہمیشہ ڈپلومیسی سے چلا جاتا ہے۔حقانی نیٹ ورک کے خلاف ناکافی کارروائیوں کے الزامات پر افغان قیادت کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ معاملات کو بند گلی میں داخل کرنا دانشمندی نہیں۔اگر یہ سوچ ہے کہ ہماری سپورٹ سے اقتدار میں آنے والی افغان قیادت سے برابری کی سطح پر بات نہیں ہوسکتی تو اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔آج آپکی منتخب کردہ افغان قیادت مکمل بدل چکی ہے۔حکمت تمام مسائل کا حال ہے۔آندھی تیز ہوتو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔مسائل تب حل ہوتے ہیں جب اپنی خامیوں پر بھی قابو پایا جائے۔آج ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی بیان کے بعد یہ بات پھر طے ہوئی ہے کہ پاکستان میں دائمی امن کا انحصار پر امن افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔افغانستان کو بھارت کے چنگل سے چھڑا کر لانا اب آسان نہیں ہوگا مگر بات چیت کے نئے دور کا آغاز کرکے مزید مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔حالیہ صورتحال میں بھارت کا کردار بھی اہم ہوگا۔پاکستان کو اس حوالے سے بھارت کے ساتھ بھی بات چیت کا دوبارہ آغاز کرنا چاہئےاور کسی بھی آزمائشی صورتحال سے بچنے کیلئے اپنے دشمن کم کرنا ہونگے۔آج کا پاکستان آزاد سویلین خارجہ پالیسی کا متلاشی ہے۔اسی پر شاید اقبال نے کہا تھا
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

تازہ ترین