• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق آئی جی جناب سردار محمد چوہدری نے 1999ء کے آخر میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا ’’نواز شریف:ٹیڑھی راہوں کا سیدھا مسافر‘‘ اس کتاب کی ایڈیٹنگ کا شرف اس درویش کو حاصل ہوا تھا جو 2000کے اوائل میں چھپی تھی اس کے صفحہ 267پر وہ رقمطراز ہیں:’’ہمارے معاشرے میں جہاں ہر طرح کی محرومیاں پائی جاتی ہیں امیر ہونا بھی ایک بہت بڑا جرم ہے اور پھر ساتھ اقتدار بھی شامل ہو جائے تو وہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔ ان محرومیوں کے سمندر میں امارت و اقتدار حسد و جلن کو جنم دیتے ہیں جس کا بے محابا طوفان شرافت و شائستگی کے تمام نشانات مٹائے جاتا ہے۔ آپ ہزار ایماندار اور خدا ترس ہوں، آپ کی پون صدی پر محیط محنت ہو، کاروبار آپ کی پیدائش سے بھی پہلے محنت مزدوری سے سفر کر کے نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہو، اگر آپ سیاست میں آنے کی غلطی کریں گے تو پھر آپ پر کچھ نہ کرنے کے باوجود انگلیاں ضرور اٹھیں گی اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھی ضرور ملے گی.....یہ سارے پاکھنڈ نواز شریف نہیں کر سکتا تھا وہ ڈرامہ باز نہیں تھا وہ مداری بھی نہیں بن سکتا تھا کیونکہ وہ اندر باہر سے ایک ہی ہے۔ سیدھا سادا صاف گو، صدقِ دل کا مالک مگر ہماری سیاست کی راہیں بہت ٹیڑھی ہیں وہ سیدھا سادا آدمی ان ٹیڑھی پگڈنڈیوں پر سیدھا چلنے کی کوشش کر رہا تھا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ ٹیڑھا نہیں چل رہا تھا وہ ٹیڑھے راستوں کو سیدھا کرنے کی کوششوں میں مارا گیا‘‘۔
مقولہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر وطنِ عزیز میں تو یہ اپنے آپ کو ہمہ وقت دہراتی ہی رہتی ہے جسے شک ہے وہ سات دہائیوں پر محیط تاریخ کا مطالعہ و مشاہدہ کر لے۔ وہی روایتی ہتھکنڈے، اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کا وہی گھناؤنا رول، میڈیا کا وہی سوسائٹی میں کنفیوژن پھیلانے والا مفاداتی کردار، سیاستدانوں کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی وہی چپقلش اور سستی شہرت و مقبولیت کی لڑائیاں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے چہرے بدلتے ہیں لیکن معمولی ردوبدل کے ساتھ ڈرامے کے کردار ویسے ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ اقتدار کی نیوکلیس جہاں چھ سات دہائیاں قبل تھی آج بھی وہیں ہے،نواز شریف کو اگر ضیاء الحق اقتدار میں لایا تھا تو بھٹو کو کون لایا تھا؟ اسکندر مرزا اور فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خاں۔ نواز شریف کو تو ڈکٹیٹر نے یہ کہا تھا کہ ’’میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے‘‘ جبکہ اس کے برعکس یہ بھٹو صاحب تھے جو ڈکٹیٹر کو کھلے بندوں اپنا ڈیڈی قرار دیتے تھے اور فاطمہ جناح کے خلاف فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑے تھے۔ آج بھی سیاست و اقتدار میں قدم جمانے کے لیے یہی مسابقت جاری ہے۔ امپائر کی انگلی کے اشاروں پر ناچ ناچ کر ایک سابق کھلاڑی ہلکان ہو چکا ہے جبکہ دوسرا نو آموز اور اس کی پارٹی تین دہائیوں پر محیط تلخ تجربات کو دریائے سندھ میں بہا کر ہڈی کا شوق لئے اسٹیبلشمنٹ کی لائن میں لگنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ پارٹی کے اندر اس وقت میچور اور امیچور دونوں سوچوں کے حاملین موجود ہیں اگرچہ فی الوقت نوخیز حاوی ہیں لیکن اگلے برس تک جتنے دھکے ان کو پڑنے والے ہیں انہیں کھانے کے بعد یہ آواز اٹھے گی کہ رضا ربانی اور خورشید شاہ صاحب جیسے بزرگ جو سوچتے تھے وہ درست تھا۔ دو مرتبہ آئین توڑتے ہوئے ٹھینگا دکھا کر بھاگ جانے والا آج بھی چلاّ رہا ہے کہ اُس نے محترمہ سےNRO سائن کر کے غلطی کی تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محترمہ کی ذہانت اور تجربہ کاری تھی کہ بائیس سال کی عمر میں سیاست کا آغاز کرنے والی شخصیت کو پے در پے وارد ہونے والی تلخیوں کے جبر نے تمام تر مصلحت پسندی و تسلیمات کے باوجود میثاق جمہوریت کے مقام بلند تک پہنچا دیا تھا۔ وہ یہ سمجھ چکی تھیں کہ اگر پاکستان کو روایتی غلام گردشوں کی سازشوں سے نکال کر صاف ستھری عوامی سیاست کرنی ہے تو پھر ہڈی دکھانے والوں کی لائن میں نہیں لگنا بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کے لیے گنجائش نکالنی ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے افہام و تفہیم کریں یہ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ 2008میں جو طاقتیں نواز شریف کو انتخابی بائیکاٹ پر اکسا رہی تھیں محترمہ نے انہیں اپنے ساتھ ملا کر الیکشن لڑنے پر آمادہ کر لیا جس کا فائدہ بعد ازاں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو پہنچا اگرچہ افسوسناک سانحہ یہ ہوا کہ جب جبر شعور کا سیاسی میدان میں مقابلہ نہیں کر سکا تو جبری قوت کے گماشتوں اور دہشت کے علمبرداروں نے اس زیرک اور تجربات سے سیکھنے والی سیاستدان کو جبری طور پر وہاں بھیج دیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آ سکتا۔
نواز شریف نے بلاشبہ اس شعوری آگہی کو مضبوط کرنے اور آگے بڑھانے کی کاوشیں کیں جس کا بڑا ثبوت 08سے13ء تک پی پی حکومت کا میعاد پوری کرنا اور جمہوری تسلسل کا اب تک قائم رہنا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں انہوں نے ٹھوکریں بھی کھائیں، چارٹر آف ڈیموکریسی سائن ہونے کے بعد اُن کے میموگیٹ میں استعمال ہونے کا کوئی ایک دفاع ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جب گیلانی کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نکالا جا رہا تھا تو اس وقت نواز شریف کا فرض بنتا تھا کہ وہ ڈٹ کر اس کی مخالفت کرتے چہ جائیکہ اس کے کھلے حمایتی بنے کھڑے دکھائی دیتے۔ ان دونوں ناعاقبت اندیش اقدامات سے بھی زیادہ سنگین غلطی چارٹر آف ڈیموکریسی پر اس کی روح کے مطابق اقدامات نہ اٹھانے کی ہے۔2008ء کے بعد دونوں بڑی جمہوری قوتوں کو عوام نے اس مقام پر بٹھا دیا تھا جہاں وہ پورے آئین کا بدلتے عصری تقاضوں کی مطابقت میں جائزہ لیتے ہوئے مضبوط انقلابی اقدامات اٹھا سکتے تھے۔ وفاقی و پارلیمانی جمہوریہ کو اس کی روح کے مطابق آئیڈیل بنا سکتے تھے آئینی قلعے کے کمزور حصے جنہیں سازشی ہمیشہ استعمال کرتے ہیں مضبوط بنائے جا سکتے تھے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو دیگر تمام اداروں پر کماحقہٗ حاوی کیا جاسکتا تھا لیکن آگے کیا بڑھتے یہاں سے تو 62/63 تک کو نہ نکالا جا سکا۔ ہر چیز کا وقت ہوتا ہے محترمہ کی شہادت اور میثاق جمہوریت کے تسلسل میں روایتی سازشی ڈگر کو توڑا جا سکتا تھا اور معاملہ آئین شکن کو سزا دینے تک پہنچایا جا سکتا تھا مگر افسوس موقع گنوا دیا گیا۔ رہتی کسر آپ کے وزیر داخلہ نے آپ کو پیہم چار سال مصلحتوں کی نذر کرتے نکال دی۔ آج وہ کہتے ہیں خوشامدیوں نے نواز شریف کو اس حال تک پہنچایا ہم سمجھتے ہیں آپ جیسے جبری طاقت کے غلاموں نے انہیں کمزور کرتے ہوئے اس بے بسی تک پہنچایا ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کا کوئی ایشو تھا؟ سندھ میں پی پی کو دیوار سے لگانے کی کاوشیں کس نے اور کیوں کیں؟ نواز شریف کو اپنے سیاسی اتحادیوں سے کس نے دور کیا؟ پرویز مشرف کو بھگانے اور ڈان لیکس میں قابل اعتماد ساتھیوں کو گرانے کی تراکیب کس نے بنوائیں؟ حکمت دانائی اور مصلحت بہت اعلیٰ قدریں ہیں لیکن جب آپ ایک مرتبہ جبر اور بے اصولی کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں تو پھر سر اٹھا کر جینے کا موقع کہاں رہ جاتا ہے۔ رہ گیا یہ سوال کہ نواز شریف کو کیوں نکالا اور سازشی کون تھے؟ اس کا جواب آئندہ کالم پر اٹھائے رکھتے ہیں نواز شریف ان تمام درپیش چیلنجز سے آج بھی سرخرو ہو سکتے ہیں اگر وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر محض آئین اور جمہوریت کا سوچیں، عوام میں اپنی اور ن لیگ کی مقبولیت کو اسی طرح قائم رکھیں۔ اتنی گھناؤنی سازشوں اور زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود ان کا ووٹر آج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

تازہ ترین