• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کے مسلسل نوٹسز کے جواب میں میاں فیملی اور محترم اسحاق ڈار نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ نظرثانی کی اپیل محض کور(cover)اور بہانہ ہے کیونکہ یہ فیصلہ ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ اور ان کے خاندان والے اس لئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے رہے کہ وہ اقتدار میں رہ کر قانون شکنی کی مثال نہیں بننا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ان کی سبکی ہوئی، شاہی خاندان نے اسے اپنی ہتک جانا لیکن اس سبکی اور ہتک عزت کی قیمت پر میاں صاحب عدالتی احترام اور قانون کی عملداری کا تاثر قائم کرگئے۔ اب وہ اقتدار میں نہیں، اب انہیں ٹکرائو اور بغاوت سوٹ(Suit)کرتی ہے، کیونکہ اس کے بہت سے سیاسی فوائد ہیں، چنانچہ نظرثانی کی اپیل کو محض ایک’’کور‘‘ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اندیشہ ہے کہ وہ نظرثانی کی اپیل کو قدرے طول دیں گے اور اس اپیل کے فیصلے بعد بھی کوئی اور جواز تراش کر نیب کے سامنے پیش ہونے سے گریز کریں گے۔ اتفاق سے یہ جواز موجود ہے کہ جے آئی ٹی انکوائری کرچکی ہے اب نیب کی انکوائری کا کوئی جواز نہیں، اگرچہ نیب میں اتنی سکت نہیں کہ وہ حکمران خاندان پر ہاتھ ڈالے اور وارنٹ برائے گرفتاری جاری کرے لیکن اگر عدالتی حکم پر ایسا ہوا تو یہ میاں صاحب کی خواہش کی تکمیل ہوگی۔ وہ نیب کے سامنے پیش ہو کر اپنی مزید سبکی کروانے کی بجائے گرفتاری کو ترجیح دیں گے، اگرچہ یہ نہایت مشکل کام ہے اور ایک عجیب سی صورت ہے کیونکہ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ پولیس بھی ان کی باندی اور جیلیں بھی ان کی سلطنت کا حصہ ہیں۔ ایسے میں جاتی امرا کو سب جیل قرار دیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر حکمران، شاہی خاندان اور امرا اپنے محلات میں قید ہی ہوتے ہیں اور سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر ان کی نقل و حرکت محدود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک اس معصوم بچے کے گھر نہیں جاسکے جسے ان کے جی روڈ کے احتجاجی جلوس نے روند ڈالا تھا۔ حیرت ہے کہ سابق وزیر اعظم کے کارواں میں کئی ایمبولنسز موجود تھیں۔ زخمی بچہ سڑک پر تڑپتا رہا اور اسے ایمبولنس کے ذریعے بروقت طبی امداد نہ دی جاسکی۔ مزید ستم یہ کہ اسے جمہوریت کا پہلا شہید قرار دیا گیا حالانکہ یہ احتجاجی کارواں جمہوریت بحال کرنے نہیں نکلا تھا بلکہ پانچ ججوں کا فیصلہ عوام سے نامنظور کرانے نکلا تھا۔ گویا عدالتی فیصلے عوامی فیصلوں کے تابع ہونے چاہئیں۔ جمہوریت بیچاری کو اس عدالتی فیصلے سےکوئی خطرہ نہیں تھا۔
بظاہر موجودہ حکمت عملی کے تحت میاں صاحب عدالتی حکم نامے کے ذریعے گرفتاری کو ترجیح دیں گے کیونکہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور مشیروں کا خیال ہے کہ گرفتاری کی صورت میں لاہور شہر اور پنجاب سڑکوں پر نکل آئے گا جہاں انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ دوسرے صوبوں اور خاص طور پر کوئٹہ میں بھی احتجاج کی چنگاریاں بھڑک اٹھیں گی۔ اس سے ہمدردی اور مظلومیت کی وہ مضبوط اور وسیع لہر پیدا ہوگی جو2018 کے انتخابات میں ان کے مخالفین کو بہا لےجائے گی۔ ایک طرح سے یہ سیاسی قوت کا مظاہرہ ہوگا، مسلم لیگ(ن) اور میاں فیملی سے وابستگی کا ثبوت ہوگا جس سے عدالتی اور احتسابی عمل پر دبائو پڑے گا۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اب کے مسلم لیگ(ن) کا ہدف انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ہے جس کے لئے انہیں ہمدردی کی مضبوط لہر، ٹکرائو، مزاحمتی سیاست اور بہادرانہ سیاست کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ(ن) دوبارہ اقتدار میں آکر آئین کی شقوں63/62کو تبدیل کرنے، عدالیہ کو پارلیمنٹ کا مرہون منت بنانے اور وزیر اعظم کی پانچ سالہ میعاد(Tenure)کو مزید محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی اور ان کی خواہش ہوگی کہ کسی طرح پارلیمنٹ کی طاقت کے ذریعے میاں صاحب کو وزیر اعظم ہائوس پہنچا یا جائے۔ مجھے اس راہ میں بے پناہ رکاوٹیں اور خطرات نظر آتے ہیںجن میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے ٹکرائو کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدلیہ اپنی آزادی پر حرف یا قدغن قبول نہیں کرے گی۔ عدلیہ کو آئین نے مکمل آزادی اور آئین کی تشریح کا اختیار دے رکھا ہے ا ور وہ پارلیمنٹ کے ایسے اقدام کو بھی غیر آئینی قرار دے سکتی ہے جس کا مقصد عدلیہ کے دائرہ کار کو محدود کرنا ہو۔ آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ مسلم لیگی لیڈروں، ترجمانوں، حکومتی وسائل سے سیریاب ہونے والے تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں، اینکروں اور بعض’’بڑے‘‘ صحافیوں کا مسلسل عدلیہ اور فوج کو ملفوف تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانا، اسٹیبلشمنٹ کا رونا رونا، ادھر ادھر اشاروں کے کنکر پھینکنا بہرحال بلاوجہ نہیں ہے، یہ سب کچھ ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
یہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹرمپ کا پہلے دن ہی سے جھکائو ہندوستان کی طرف تھا لیکن اب ٹرمپ نے پاکستان پر اس وقت’’حملہ‘‘ کیا ہے جب پاکستان مجموعی طور پر کمزور ہے، داخلی حوالے سے تقسیم کا شکار ہے اور اہل قیادت کے فقدان کی سزا بھگت رہا ہے۔ میاں صاحب کے تقریباً چار سالہ سنہری دور حکومت میں جہاں صنعتی پیداوار، برآمدات، عالمی حیثیت، غربت و بے روزگاری اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں کوئی اہم پیش رفت نہ ہوسکی وہاں سب سے نمایاں ناکامی خارجہ پالیسی کے میدان میں تھی۔ ہماری خارجہ پالیسی بے سمت، غیر مؤثر اور ناکام رہی جس کی ایک اہم وجہ وزیر اعظم کا وزیر خارجہ کا قلمدان بھی سنبھالنا تھا وزیر اعظم نہ خارجہ پالیسی کو وقت دے سکتے تھے اور نہ ہی اس کا ادراک اور وژن رکھتے تھے۔ ان کی ترجیح اور واحد دلچسپی غیر ملکی دورے تھے جس میں انہوں نے ریکارڈقائم کئے۔ ستر ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور اربوں ڈالر دہشت گردی کی جنگ میں جھونکنے کے باوجود پاکستان پر دہشت گردی کا الزام اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا پروپیگنڈہ ہماری ناکام خارجہ پالیسی اور بےعملی کا ثبوت ہے۔ ٹرمپ کا پاکستان کو وارننگ دینا نہ صرف مستقبل میں خطرات کی جانب اشارہ ہے بلکہ یہ بیان عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف ڈھالنے میں اہم کردار سرانجام دے گا۔ پاکستان مخالف اس مہم کو ہندوستان اور افغانستان آگے بڑھائیں گے اور ہماری کمزور ایکسٹرنل پبلسٹی اس کا جواب نہیں دے سکے گی اور ہاں نہ ہی محترم خواجہ آصف صاحب خارجہ میدان کے شہسوار ہیں کہ اس بڑھتے اور پھیلتے طوفان بلا کا راستہ روک سکیں۔ ایک چینی بیان ہمارے دکھوں کا مداوا نہیں اور نہ ہی چین کی وزارت خارجہ کا بیان ٹرمپ کے حملے اور منفی عالمی رائے میں کوئی شگاف(Dent)ڈال سکے گا۔ یارو! پاکستان قیادت کے فقدان کا شکار ہے، محض ا قتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے سے انسان قائد نہیں بنتا۔ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام بہت بڑا امتحان ہے۔ نہ میاں صاحب کی حکومت اس امتحان میں سرخرو ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں کامیابی نظر آتی ہے۔اس لئے نئی پابندیوں، مزید سزا، عالمی سطح پر تضحیک اور مخالفین کی دہشت گردی کے لئے تیار رہو۔ اکیلی فوج کیا کرے گی جسے اسٹیبلشمنٹ کے نام پر سیاستدانوں نے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
رہا داخلی سیاسی میدان تو میاں صاحب کو تھوڑی سی بغاوت اور تھوڑا سا ٹکرائو’’سوٹ‘‘ کرتا ہے۔ وہ لیڈر ہی بنے تھے،90/1980کی دہائی میں پی پی پی سے ٹکرائو اور غلام اسحاق خان کی ڈکٹیشن(Dictation)سے انکار کرکے اس لئے ٹکرائو ان کے مزاج کا حصہ بھی ہے، فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں باقی پھر ان شاءاللہ۔

تازہ ترین