• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیگم کلثوم نواز کو صحت کاملہ عطافرمائے اور ان کی مشکلات آسان کرے۔ جب وہ گزشتہ ہفتے این اے 120 لاہور کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد اچانک لندن چلی گئیں تو ان کے کچھ مخالفین نے حسب عادت مکروہ باتیں شروع کر دیں اور سازشیں گھڑیں کہ وہ اس لئے ملک سے باہر گئی ہیں تاکہ ان کے شوہر سابق وزیراعظم نوازشریف بھی ان کے بعد جاسکیں مگر وہ دراصل اپنے علاج کیلئے برطانیہ گئی ہیں۔ وہاں جا کر پہلے یہ معلوم ہوا کہ انہیں گلے کا کینسر ہے مگر مزید چیک اپ کے بعد پتہ چلا کہ انہیں بلڈ کینسر ہے۔ یقیناً یہ موذی مرض ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر مریض کو بڑے سخت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اللہ ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں۔ ان کی غیر موجودگی میں این اے 120 کی انتخابی مہم کی انچارج ان کی دختر مریم صفدر ہوں گی جو کہ پہلے بھی اپنے والد کیلئے اس طرح کی کمپین کرتی رہی ہیں۔ ان کے پاس ایک بڑی موثر ٹیم موجود ہے۔ بیگم کلثوم کے علاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے شوہر بھی اس حلقے پر کچھ توجہ دیں گے۔ ان کے علاوہ نون لیگ کے دوسرے رہنما بھی اس انتخابی مہم میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو کہ آئندہ چند روز میں مزید تیز ہو جائے گی۔ یہاں سے نوازشریف ہمیشہ بڑی لیڈ سے جیتتے رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد اس سیٹ کے خالی ہونے کے فوراً بعد سے ہی بھرپور مہم چلا رہی ہیں مگر ان کی جیت کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار بھی ہاتھ پائوں مار رہے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو 2013ء کے عام انتخابات والی پوزیشن سے باہر نکال سکیں ۔
بیگم کلثوم ایک بہادر خاتون ہیں۔ اس کا ثبوت انہوں نے 12 اکتوبر1999ء جب پرویزمشرف نے مارشل لالگا کر نوازشریف حکومت کو برطرف کر دیا تھا کے بعد بہت خوب دیا تھا۔ پہلی بار وہ سیاسی میدان میں کودی تھیں اور انہوں نے فوجی آمر کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ انہوں نے پورے پاکستان میں بہت موثر حکومت مخالف تحریک چلائی تھی اور ایک وقت ایسا آگیا تھا جب پرویزمشرف نے سوچا کہ سوائے اس کے کہ بیگم کلثوم اور ان کے خاندان کو پاکستان سے باہر بھیجا جائے تاکہ وہ سکون سے حکومت کر سکیں کوئی چارہ نہ رہا۔ سابق خاتون اول نے 14 ماہ بہت ہی عمدہ باعزت انداز میںخوب سیاست کی۔ اس وقت ان کے شوہر نوازشریف، بیٹے حسین اور شہبازشریف کے علاوہ فیملی کے دوسرے افراد اور ان کی جماعت کے بہت سے اہم رہنما جیل کی کال کوٹھڑیوں میںبند تھے اور پرویز مشرف کے ظلم وستم سہہ رہے تھے۔ اس عرصہ میںکسی بھی مرحلے پر بیگم کلثوم سے کوئی بڑی یا چھوٹی سیاسی غلطی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کی شخصیت متاثر ہو اور نون لیگ کو کوئی ذرہ سا بھی نقصان پہنچا ہو۔ انہوں نے ’’ریزسٹنس‘‘ کی ایک بہت اچھی مثال قائم کی تھی۔ فوجی حکمران پر تنقید کرتے ہوئے بھی انہوں نے ہمیشہ شائستہ اور متوازن زبان استعمال کی اور کبھی بھی دشنام طرازی پر نہیں اتریں۔ بدقسمتی سے جو گندی سیاست پچھلے چار سال سے ہمارے ایک سیاستدان 2013ء کے عام انتخابات ہارنے کے دکھ کی وجہ سے کر رہے ہیں اس کا اس وقت نام ونشان بھی نہیں تھا اگرچہ بیگم کلثوم کے زخم ان کی حکومت کی برطرفی اور ان کے شوہر اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی وجہ سے بہت گہرے تھے۔ جس دلیرانہ انداز میں انہوں نے اس کٹھن مرحلے کو عبور کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی بیماری پر بھی اسی جرات اور صبر سے قابو پالیں گی۔
جب 10 دسمبر 2000ء کو انہیں ،ان کے شوہر اور فیملی کے دوسرے افرادکو سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا تو وہ سیاست سے بالکل اسی طرح ہی الگ تھلگ ہوگئیں جیسے کہ وہ ہمیشہ رہی ہیں۔ نہ ان کا کبھی کوئی سیاسی بیان آیا اور نہ ہی کوئی ان کی سیاسی سرگرمی سامنے آئی۔ جب 28 جولائی کو نوازشریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تو ایک بار پھر بیگم کلثوم کو سیاسی میدان میں لانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ بھی صرف محدود انداز میں ہی۔ 17 سال قبل انہوں نے بھرپور مہم چلا کر اپنے پورے خاندان کو ریسکیو کیا تھا اور اب ایک بار پھر وہ اسی مشن پر ہیں۔ پہلی بار تو مارشل لاکا سامنا تھا اور اب ایک مختلف مگر انتہائی منظم سازش کا جس کے بہت سارے پلیئرز پس پردہ ہیں اور جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں حالانکہ بدقسمتی سے وہ اس میدان کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں اور انہوں نے اپنے مہرے سیاسی جماعتوں کی شکل میں کھڑے کر رکھے ہیں جو ہر وقت ان کی بولی بولتے ہیں اور سیاست کا جنازے نکال رہے ہیں۔ بیوقوف نہیں سمجھ رہے کہ سارا کھیل سیاست دانوں کو گندا کرنے کیلئے ہے جس میں وہ سیاستدان بھی شامل ہیں جو اس سازش کا حصہ ہیں۔ پیغام یہ دینا ہے کہ سیاست چور ہیں، اچکے ہیں، کرپٹ ہیں، بددیانت ہیں اور ملک فروش ہیں لہٰذا پاکستان کو ان سے جان چھڑانا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی عدالتوں اور ٹریبونلوں کا سہارا لے کر بیگم کلثوم کو ٹیکنیکل ناک آئوٹ کرنا چاہتی ہے اس کے ساتھ پیپلزپارٹی اور پاکستان عوامی تحریک بھی شامل باجا ہیں۔ ان سب کا خیال ہے کہ چونکہ وہ نوازشریف کو عدالت عظمیٰ کے ذریعے عہدے سے محروم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اس لئے اب یہی طریقہ سب سے موثر ہے کہ نون لیگ کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔ اب ان کی اہلیہ کو بھی اسی پراسس کے ذریعے میدان سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ریٹرننگ آفیسر اور ہائی کورٹ کے ٹریبونل کے لیول تک یہ ناکام رہے ہیں ۔ لگاتار احتجاج، دھرنے، لاک ڈائون، سرکاری املاک پر حملے اور سازشوں کے باوجود یہ عناصر نوازشریف حکومت کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب وہ سیاسی میدان میں نون لیگ کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہٰذا وہ سازشی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہے۔ اگرچہ وہ نوازشریف کو بذریعہ سپریم کورٹ وزیراعظم کے عہدے سے محروم کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر اس سارے کھیل کی وجہ سے سابق وزیراعظم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ کبھی یہ حضرات الیکشن کمیشن کی طرف بھاگتے ہیں کہ نون لیگ میں سے ’’نواز‘‘ کے اضافے کو ختم کیا جائے اور کبھی یہ شور مچاتے ہیں کہ نوازشریف چونکہ نااہل ہوگئے ہیں لہٰذا انہیں سیاست میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے سابق وزیراعظم کوئی الیکشن تو نہیں لڑ سکتے اور نہ ہی نون لیگ کا کوئی عہدہ رکھ سکتے ہیں مگر انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہیں روکا جاسکتا ایسے ہی جیسے کہ یوسف رضا گیلانی اپنی عدالتی نااہلی کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی تمام سرگرمیوں کا حصہ رہے ۔ حسب معمول پی ٹی آئی نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ نون لیگ این اے 120 میں پری پول دھاندلی کر رہی ہے اور سرکاری وسائل استعمال کئے جارہے ہیں مگر یہ صرف وہی پرانا الزام اور شور شرابا ہے کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا جارہا کیونکہ بقول عمران خان کے ان کا کام صرف الزام لگانا ہے ثبوت دینا نہیں۔ اسی سیاست کی وجہ سے انہیں پہلے بھی کافی نقصان پہنچا ہے اور اب بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا فائدہ تو اس وقت ہوگا جب عوام ووٹ دیں گے اس کا پتہ 17 ستمبر کو این اے 120 لاہور میں چل جائے گا جب بیلٹ باکس کھلیں گے۔

تازہ ترین