• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روزشائع ہونے والے میرے کالم ون، ٹو ، تھری ، فور ، فائیو کے بعد جہاں زبردست رپسانس سے مجھے خوشی ہوئی وہاں میرے ایک دوست کے توسط سے ملنے کیلئے آنے والی ایک ٹیچر کی باتوں نے مجھے بہت رنجیدہ کردیا ہے ، مجھے اپنےا سکول کی طالبات کے حو ا لے سے مختلف واقعات سناتے ہوئے کئی مرتبہ رودیں ، میں ان کی طرف سے کی جانے والی ساری باتیں تو تحریر نہیں کرسکتا لیکن انکی سنائی جانے والی چند باتیں آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔ٹیچر کا کہنا تھاا سکول میں پڑھاتے ہوئے اور بیٹھے ہوئے چند بچیوں نے اپنے موبائل فون کی مدد سے ایسے زاویے سے میری ویڈیو بنالی جو دیکھنے میں بہت واہیات محسوس ہوتی ہے ، اور پھر ان بچیوں نے یہ ظلم کیا کہ میری ویڈیو کو سوشل میڈیا پر چڑھا دیا اپنا واقعہ سناتے ہوئے وہ بار بار یہ کہتیں کہ آج کل کے لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں نے پر پرزے نکال لئے ہیں ان کے بیگز اور موبائل فونز سے ایسی ایسی چیزیں ، پیغامات اور ویڈیوز ملتی ہیں کہ ہاتھ بے اختیار ہوکر نہ صرف کانوں کو چھونے لگتے ہیں بلکہ ان لڑکیوں سے خوف آنا شروع ہوجاتا ہے میرے ٹوکنے اور ایک سوال کے بعد انہوں نے کہاکہ یہ درست ہے کہ ایسی لڑکیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور بہت اچھی بچیاں بھی ہیں جنہیں دیکھ کر رشک آتا ہے اور ان بچیوں اور ان کے والدین کیلئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں لیکن میں آٹے میں نمک کے برابر ان بچیوں کا اس لئے ذکر ضروری سمجھتی ہوں کہ ان بچوں یا بچیوں کے والدین جو اپنے بچوں پر کڑی نظر نہیں رکھتے یا ان کو موبائل اور انٹر نیٹ کا بلا روک ٹوک استعمال کرنے دیتے ہیں وہ بچے اپنے والدین ، اساتذہ، تعلیمی اداروں اور معاشرے کے لئے کتنی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں، میڈم نے اس حوالے سے کئی چشم کشا واقعات سنائے اور اپنے حوالے سے سنائے جانے والے واقعہ کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ جب ہم نے کلاس کی اچھی بچیوں کی مدد سے ان بچیوں کا کھوج لگالیا جنہوںنے میری ویڈیو بنائی تھی تو ان بچیوں کوا سٹاف روم میں بلا کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ ان کا عمل کتنا قابل اعتراض تھا تو ان بچیوں نے شرمندہ ہونے کی بجائے ایسے جوابات دیئے جس سے خوف آنے لگا ہے پہلے ان بچیوں نے یہ کہاکہ ان کی گھر میں پہلے ہی ساکھ اچھی نہیں ہے اور اگر آپ مزید کوئی بات بتا دیں گی تو خراب ساکھ کو اور کیا نقصان پہنچے گا، والدین سے روزانہ ملنے والی ڈانٹ میں کچھ اضافہ ہوجائے گا، جب ان بچیوں نے محسوس کیا کہ ان کی ٹیچر اب کسی صورت بھی ان کے والدین کوا سکول بلانے سے باز نہیں آئیں گی تو ان بچیوں نے ایک اور خطرناک انداز اپناتے ہوئے کہاکہ ہم خود سوزی یا خود کشی کرلیں گی اور ہماری موت کی ذمہ دار آپ اور یہ اسکول ہوگا، ہم ٹیچرز نے ان بچیوں کو واپس کلاس میں بھیجتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ دن انتظار کرکے کسی نہ کسی طریقے سے ان کے والدین کوضرور بلانا ہے اور انہیں یہ ضرور باور کرانا ہے کہ ان کی صاحبزادیوں کی حرکات ان کیلئے باعث شرمندگی ہوسکتی ہیں اور پھر جب کچھ روز بعد ان کے والدین کوا سکول بلا کر انہیں یہ بتایا گیا کہ ان کی بچیوں کی حرکات قابل اعتراض ہیں تو انہوںنے تمام الزامات ماننے سے انکار کردیا اور دھمکیاں بھی دیں جس پر یہ ساری ٹیچر بہت دلبرداشتہ ہوئیں اورہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آپ کے ذریعے یہ بات والدین تک پہنچائیں کہ خدا را لڑکے ہوں یا بچیاں انہیں کھلی آزادی نہ دیںبلکہ ان کی حرکات پر کڑی نظر رکھیں اور موبائل کے منفی استعمال کو سختی سے روکیں ان کے میسج باکس چیک کریں ان کے موبائل فون میں کیا کیا ہے اس پر بھی نظر رکھیں اپنی محترم ٹیچر کی خواہش پر تحریر کردہ ان سطور کے ساتھ ساتھ میں یہ با ت بھی نو ٹس میں لا نا چاہتا ہوں کہ مجھے سینکڑوں ای میلز اور میسجز کے ذریعےا سٹوڈنٹس نے بتایاہے کہ کس طرح میڈیکل کالجز میں داخلے کیلئے ہونے والے MDCATکے ٹیسٹ کے پیپرز پہلے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے میں فروخت کئے گئے بعد ازاں یہی پیپرز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیئے گئے یوں 34سو سیٹس کیلئے ٹیسٹ دینے والے 70ہزارا سٹوڈنٹس کو مخمصے میں ڈال دیا ، یہ ہمارا پنجاب ہے جس میں سب کچھ ہوا ہے ارباب اختیار کو ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہیے ۔

تازہ ترین