• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ شور و غوغا ، یہ سراسیمگی ، یہ دھمکیاں۔ آخر یہ سب کیوں ؟۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان اور پاکستان سے متعلق پالیسی بیان میں آخر کونسی چیز غیرمتوقع ہے کہ ہم غیرمعمولی جذباتیت کا مظاہرہ کرنے لگے ۔ اللہ گواہ ہے میرے لئے تو ان کی تقریر میں ایک لفظ بھی غیرمتوقع نہیں تھا۔ جب میرے جیسے معمولی مزدور اور طالب علم کو اندازہ تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی پٹاری سے ایسی ہی چیز نکلے گی تو پھر ہمارے ملک کے مختاروں کو کیسے اندازہ نہیں تھا۔ اگر اندازہ نہیں تھا تو پھر انہیں اس ملک کے مختار بننے کا کیا حق اور اگر اندازہ تھا تو پھر اس ہلچل اور شوروغوغا کا کیا جواز ؟۔ امریکی صدر ٹرمپ کے مذکورہ پالیسی بیان سے دوروز قبل یعنی 20 اگست کو ’’مارشل لاکیوں‘‘ کے زیرعنوان ’’جرگہ‘‘ میں عرض کیا تھا کہ :
’’افغان پالیسی کے اعلان میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اداروں کا محاسبہ شروع کررکھا ہے ۔ وہ پینٹاگون ، سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے افغانستان میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کئے ، کئی ہزار فوجی مروائے اور لاکھوں فوجیوں کو وہاں تعینات رکھا تو اس کے جواب میں کیا حاصل کیا۔اب ظاہر ہے وہ اپنی ناکامیوں اور حماقتوں کا اعتراف تو نہیں کرسکتے تو ان سب کی طرف سے یہ جواب مل رہا ہے کہ انہوں نے تو فلاں فلاں کارنامے سرانجام دئیے لیکن پاکستان اور بالخصوص پاکستانی فوج کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔ المیہ یہ ہے کہ صرف امریکی ادارے اپنے صدر کو یہ پٹی نہیں پڑھارہے ہیں بلکہ افغانستان کے سابق حکمران ہوں یا موجودہ ، ڈونلڈٹرمپ جس سے بھی بات کرتے ہیں ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ پاکستان کی وجہ سے امریکہ اور افغان حکومتیں امن قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ یہی فیڈ بیک ان کو انڈیا اور نیٹو کے اتحادیوں کی طرف سے بھی ملتا ہے ۔دوسری طرف یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ امریکہ میں پالیسی ریویو کے موقع پر وہاں پاکستان کا کیس ان کے سامنے کسی نے پیش نہیں کیا ۔ ہم داخلی سیاسی جھگڑوں میں مصروف رہے ۔ وزیراعظم یا آرمی چیف تو کیا اس عرصہ میں ہمارے وزیرخارجہ بھی لابنگ کے لئے امریکہ نہیں جاسکے ۔ اب جب سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا تو امریکی صدر ٹرمپ کو اس سوال کا سامنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟۔ ایک رائے یہ تھی کہ پاکستان کو اعتماد میں لے کر اس کی مراعات بڑھادی جائیںاور دوسری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ سختی کی جائے ۔چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کی روح میں پاکستان کو سبق سکھانے کا عنصر ضرور شامل ہوگا‘‘۔
جو ہونا تھا سو ہوچکا لیکن سوال یہ ہے کہ اب اچانک ہم نے آسمان سر پر کیوں اٹھا لیا؟۔ کیا امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے جارہا ہے جو ہم ملک کے اندر جنگی فضا بنانے جارہے ہیں ؟یا کیا امریکہ نے خاکم بدہن پاکستان کو ویت نام بنانے کا اعلان کردیا ہے جو ہم ویت نام اور کمبوڈیا کی مثالیں دیتے پھررہے ہیں ۔ میرے نزدیک تو ایسی کوئی بات نہیں ۔ الحمدللہ نہ پاکستان اتنا گیا گزرا ہے اور نہ امریکہ اس قدر طاقتور ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوجی آپشن کا سوچے ۔ ابھی تو امریکہ نے اپنی پوری پالیسی یاا سٹرٹیجی بھی واضح نہیں کی ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو صرف پالیسی بیان دیا ہے اور اپنی اسٹرٹیجی (جو ابھی سامنے نہیں آئی) کی بنیادی سمت واضح کردی ہے تاہم یہ تفصیلات ابھی طے ہونی ہیں کہ امریکہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ کیسے پہنائے گا۔ ابھی تو پاکستان سے ہر سطح پر بات چیت ہونی ہے اور اگر پاکستان طالبان کے حوالے سے امریکہ کے حسب منشا نتائج نہ دے سکا تو پھر امریکی حکومت اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں دی ہے ۔ یہ بھی ابھی طے ہونا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے سفارتی راستہ اپنائے گا ، اقتصادی یا پھر مغربی اور مشرقی بارڈر پر اس کی مشکلات بڑھانے کا ۔اب اگر طالبان کے معاملے میں ہمارا دامن صاف ہے تو پھر پریشانی کس بات کی ۔ جو صفائیاں ہم روز اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں ، وہ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کیوں نہیں سمجھاسکتے اور اگر واقعی دال میں کچھ کالا ہے تو پھر امریکہ سے جنگ کی تیاریوں کی بجائے ہم دال سے اس کالے کو نکالتے کیوں نہیں ؟۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں افغانستان کے بارے میں سابق صدر اوباما کی اعلان کردہ پالیسی سے جس قدر پریشان تھا ، اس قدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سے نہیں ہوں۔ صدر اوباما بہت ذہین انسان تھے لیکن افغانستان کے بارے میں ان کی پالیسی تضادات پر مبنی تھی ۔ ایک طرف انہوں نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ دے دی تھی اور دوسری طرف افواج کی تعداد میں اضافہ کیا ۔ وہ طالبان سے مفاہمت کے حق میں بھی نہیں تھے اور میکرو لیول تک افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو بھی ڈکٹیٹ کررہے تھے ۔ وہ افغان حکومت کو بھی جزیات کی حد تک بتارہے تھے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے اور پاکستان سے متعلق بھی ان کا کم وبیش یہی رویہ تھا۔ صدر اوباما کی بنسبت ڈونلڈ ٹرمپ بے وقوفی کی حد تک جارحانہ سوچ رکھتے ہیں لیکن افغان پالیسی ان کی اپنی نہیں بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی عکاس ہے ۔ اس لئے اس میں اپنے کارڈز خفیہ رکھے گئے ہیں لیکن طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیاسی حل کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے ۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکہ بہر صورت افغانستان میں جنگ کا مسئلہ حل کرے گا اور اس کے لئے جتنی دیر فوجوں کو رکھنا پڑا ، فوج رکھی جائے گی ، جتنی طاقت ضروری ہوئی استعمال کی جائے گی اور جہاں ضروری ہوا سیاسی حل کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نہ پاکستان کو ڈکٹیشن دیاجائےگا اور نہ افغان حکومت کو۔ افغان حکومت پر واضح کردیا گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ، کام کرے لیکن مطلوبہ نتائج دے ۔ا سی طرح پاکستان سے متعلق بھی اپنا مطالبہ واضح کردیا گیا ہے اور یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اگر طالبان کے معاملے میں پاکستان نے حسب منشا تعاون کیا تو اسے صلہ ملے گا اور اگر نہیں کیا تو پھر اسے نتائج بھگتنے ہوں گے ۔ اب ہمارا تو موقف یہ ہے کہ پاکستا ن میں طالبان کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور ہم حسب استطاعت ان کے خلاف کارروائی کررہے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو افغان حکومت اور امریکہ کو اطمینان دلانے میں کیا امر مانع ہے ۔ اور اگر واقعی ہم افغان اور امریکی حکومت کے حسب توقع تعاون نہیں کررہے ہیں تو پھر وہ کرنے میں کیا حرج ہے ۔ ہم خود کہتے ہیں کہ طالبان کا دوبارہ افغانستان پر قابض ہونا پاکستان کے حق میں نہیں ۔ ہم خود کہتے ہیں کہ طالبان اب ہمارے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے ملکوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں ۔ ہم خود کہتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں مانتے ۔ تو پھر ان کو اپنی سرزمین سے نکالنے یا پھر افغان حکومت کے ساتھ بٹھانے میں کیا حرج ہے ۔
پاکستان کے حساب سے امریکہ کے اس شر میں خیر کے بعض پہلوبھی پوشیدہ ہیں ۔ مثلاً ابھی تک روس اور چین بھی پاکستان کی افغان پالیسی کے ہمنوا نہیں تھے لیکن امریکی صدر ٹرمپ کے اعلانات اور ارادوں نے ان کو بھی پاکستان کاہمنوا بنا دیا۔ پہلے افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی اور سلامتی پر صرف پاکستان معترض تھا لیکن اب چین اور ہوسکتا ہے کہ کسی مرحلے پر روس بھی اس حوالے سے معترض ہوجائے۔ افغانستان کے تناظر میں ایران ابھی تک ہندوستان کا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا ہوا تھا لیکن جس طرح امریکہ ہندوستان کو افغانستان میں اپنا پراکسی بنانا چاہتا ہے ، اس کے تناظر میں اب ایران اور ہندوستان کی وہ پارٹنرشپ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی اور اگر ہم اپنے کارڈز صحیح طریقے سے استعمال کریں تو کسی وقت ایران کو بھی اپنے مشرقی بلاک میں لاسکتے ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان نے خود افغان حکومت اور قیادت کو بھی تقسیم کردیا ہے ۔ صدراشرف غنی نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ان سے زیادہ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اسے مسترد کردیا۔ افغان قیادت کا ایک بڑا حصہ پہلے سے افغانستان میں ہندوستان اور پاکستان کی پراکسی وار سے خوش نہیں تھا۔ امریکہ کی نئی پالیسی سے چونکہ اس پراکسی وار کا خطرہ بڑھ جائے گااور چین جیسا بڑا ملک بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے ، اس لئے یہ طبقہ امریکہ اور ہندوستان سے دور اور پاکستان کے قریب ہوتا جائے گا۔
خیر کا ایک اور بڑا پہلو یہ ہے کہ شاید اب دبائو میں آکر پاکستان اپنے لئے خیر کا وہ قدم بھی اٹھالے جو ماضی میں بوجوہ وہ نہیں اٹھارہا تھا۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ طالبان کے مسئلے کو حل کرنا اور افغانستان میں بہ ہر صورت پائیدار امن کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنا ، خود پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن ہم بوجوہ اس طرف نہیں آرہے تھے۔ شاید یہ دبائو ہمیں اب اس راستے پر لے آئے جو خود ہمارے لئے سلامتی کا راستہ ہے ۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا کرے ۔ میرے نزدیک نہ تو امریکہ کو اشتعال دلانے کی ضرورت ہے اور نہ پریشان ہوکر اس کی قدم بوسی کی ۔ جنگی فضا بنانے کی بجائے امریکہ کے سامنے سفارتکاری کے ذریعے اپنا کیس رکھ دیا جائے لیکن اصل توجہ امریکہ نہیں بلکہ افغان حکومت پر مرکوز کردینی چاہئے ۔ چین اور روس کے تعاون سے یا انہیں گارنٹر بنا کر افغان حکومت کے مطالبات کو صدق دل سے پورا کردینا چاہئے اور مذکورہ دو ممالک کے ذریعے افغان حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی صدق دل سے پاکستان کے جائز مطالبات کوتسلیم کرے ۔ سردست ہماری پوزیشن اس لئے خراب ہے کہ امریکہ کے الزامات میں خود متاثرہ فریق یعنی افغانستان بھی اس کا ہمنوا ہے ۔ اسی طرح برطانیہ اور یورپی ممالک بھی یہی رائے رکھتے ہیں ۔ چین اور روس ہمارے ساتھ ہیں لیکن طالبان کے معاملے میں وہ دونوں بھی پوری طرح ہمارے موقف کے قائل نہیں ۔ ہم نے اگر افغانستان کو مطمئن کرلیا اور چین و روس بھی ہماری صداقت کے پوری طرح قائل ہوگئے تو امریکہ کے الزامات اور دھمکیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی ۔ تیاری بڑھکیں مارنے ، اپنی قوم کو اشتعال دلانے اور دفاع پاکستان کونسل والوں کو میدان میں اتارنے کی صورت میں نہیں ہوسکتی ۔ ہر پاکستانی امریکہ کی ناراضی مول لے سکتا ہے لیکن ماضی کا سبق یہ ہے کہ ہماری دو وزارتیں یعنی وزارت خزانہ اور وزارت دفاع امریکہ کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ اگر امریکہ سے مقابلے کی تیاری کرنی ہے تو یہ دو وزارتیں کریں کیونکہ برہم ہونے کی صورت میں امریکی اقتصادی دبائو کا راستہ اپنائیں گے اور دفاعی امداد روکیں گے ۔ایک بات یہ ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ چین ہماری سفارتی مدد کرے گا لیکن اس سے آگے کچھ وہ اپنے معاملات میں نہیں کرتا تو ہمارے لئے کیوں کرے گا۔ چین بہت بڑی طاقت بن گیا ہے لیکن ابھی پوری طرح امریکہ کا متبادل نہیں ۔ چینی وزارت خارجہ نے پاکستان کے حق میں جو بیان دیا ہے ، اس بیان کے دوسرے پیراگراف میں امریکہ اور پاکستان کی انگیج منٹ پر بھی زور دیا ہے ۔ اسی لئے جوش نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین