• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی بہت دل چسپ قوم ہیں ۔ جیسے ہی ملک سے باہر قدم رکھتے ہیں ان کو دو چیزوں کی تلاش ہوتی ہے ۔ پہلے تو پاکستانی کھانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں خوراک کا بندو بست ہوتے ہی سمندر پار پاکستانیوں سے ملنے کی چاہت ہوتی ہے۔ کوئی پوچھے بھلے آدمی یہ ہر دو چیزیں تو اس دھرتی پر بھی بے بہا میسر ہیں تو پھر باہرکے سفر کاہے کو کرو ہو؟ اس کا جواب صرف اتنا دیا جا سکتا ہے کہ دیار غیر میں جا کر جو وطن کی محبت دل میں جاگتی اس کا اندازہ گھر بیٹھے نہیں ہو سکتا۔اس گفتگو کا مقصد صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک ہفتے کے لئے ایک ذاتی کام سے دبئی جانا ہوا۔ جاتے ہی پہلی تلاش پاکستانی خوراک کی تھی اور اس سے فرصت پاتے ہی پاکستانیوں سے ملنے کی خواہش تھی۔ ان سے ملنا خوش بختی رہا ۔ اس لئے کہ ملکی حالات کے بارے میں جس قدر تشویش ان لوگوں کو ہوتی ہے وہ یہاں رہنے والوں کو سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ جن لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ سب دبئی کی عالی شان عمارتوں ، کشادہ سڑکوں ، پر تعیش گھروں میں رہتے ہیں۔ان سب کے پاس اب دو ملک ہیں جن کا تقابل کرتے ہیں۔ایک طرف ہر جدید سہولت ہر انسان کو میسر ہے دوسری طرف اپنے ہاں سے کبھی لوڈ شیڈنگ کی خبر آتی ہے کبھی دھماکے ڈراتے ہیں، کہیں ٹوٹی سڑکوں کا غم ہوتا ہے، کہیں گندے اسپتالوں میں مرنے والے مریضوںکا ماتم ہوتا ہے، کہیں غربت کے مارے خود کشیوں کی خبر آتی ہے، کہیں مارشل لاکا خوف دکھائی دیتا ہے ، کہیں ملک کے مقبول لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے کہیں ان کوبے وجہ نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ محب وطن پاکستانی دیار غیر میں کڑھتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سب کچھ ہے مگر پھر ہم ترقی کیوں نہیں کرتے ۔ سڑکیں بنانا، بجلی لانا ، صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ، اعلی تعلیم مہیا کرنا اتنا بھی مشکل کام نہیں ہے۔ آخر ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو سانس نہیں لینے دیا جاتا۔ کیوں آمریت کے تاریک دور ہمارا مقدر بنتے ہیں۔یہ سوال انکے ذہنوں میںہر وقت کلبلاتے رہتے ہیں۔ محنت کرنے والے یہ پڑھے لکھے جفاکش پاکستانی لوگ کیا سوچتے ہیں۔ اس حوالے سے چند باشعور لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جس طرح ٹی وی پر ہر اینکر آج کل حلقہ این اے ایک سو بیس میں سڑکوں پر پول کرواتا ہے اسی طرح میں نے بھی یہ پول دبئی میں کرانے کی کوشش کی ۔تمام احباب کا ذکر ممکن نہیں لیکن جن سے زیادہ ملاقات رہی انکے خیالات کا احوال آپ کی نظر ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دبئی جیسی پولیس اسٹیٹ میں رہ کر بھی یہ سب سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لئے جمہوریت ہی بہتر نظام ہے۔
سب سے پہلے ملاقات خواجہ ساجد سے ہوئی۔ واہ کینٹ سے تعلق ہے ۔ کھل کر ہنستے ہیں ۔ بینک میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ پشتوں سے مسلم لیگی ہیں۔ملک کے ہر سیاسی معاملے سے باخبر ہیں۔ میاں صاحب کی نااہلی کا جتنا غم ان کو ہے اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گفتگو میں بار بار یہی کہتے رہے دیکھیں جی کوئی کرپشن ہوتو بندہ نا اہل بھی ہو۔ ایک اقامے پر میاں صاحب کونکال دیا۔ اسی وجہ سے تو ملک ترقی نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے تو جمہوریت نہیں چلتی۔ باہر والوں نے کیا نقصان پہنچانا ہے۔بار بار کہتے رہے جمہوریت چلے گی تو ملک چلے گا۔
کاشف علی ایک بہت بڑی آئل کمپنی میں بہت اہم عہدے پر فائز ہیں بہت سنجیدہ نوعیت کے آدمی ہیں۔ بنیادی تعلق جہلم سے ہے۔ سیاسی معاملات میں حیرت انگیز سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ جملہ لکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ادب سے بھی تعلق رہا ہے۔ اس وطن سے محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کو موجودہ حالات کا بہت غم ہے۔ وزیر اعظم کی نااہلی پر بہت غمگین ہیں۔ ان کا بس چلے تو کسی طرح کوئی جادو کی چھڑی چلے اور نواز شریف پھر وزیر اعظم بن جائیں ۔ ان کو بہت سمجھایا کہ جادو کی چھڑی تو چلی ہے مگر نااہلی کے لئے۔ کاشف سسٹم کی بات کرتے ہیں ۔ ترقی کے خواب دیکھتے ہیں۔ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن پر اعتبار کرتے ہیں۔ جمہوریت کی بے توقیری کا ماتم کرتے ہیں۔
راحیل رانا بڑی دلچسپ شخصیت ہیں ۔ پکے لاہوری ہیں۔ مسلم لیگ سے عشق کرتے ہیں۔ اس کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں۔ صرف لفظوں پر یقین نہیں رکھتے عملی طور پر وطن کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ شعر بھی کہتے ہیں۔ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔انکو بھی آمریت کے بار بار ڈسنے کا غم کھا رہا ہے۔ پاکستان کے ترقی نہ کرنے پر دل گرفتہ رہتے ہیں۔ شعلہ بیان مقرر ہیں۔ انکا ووٹ بھی نواز شریف کے حق میں نکلا۔ یہ کسی اور کو لیڈر ماننے کو تیار ہی نہیں۔ بار بار کہتے رہے میاں صاحب کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔بڑا ظلم ہوا ہے۔ ستر سال ہو گئے کیا سب جمہوری وزیراعظم کرپٹ تھے؟کیوں نہیں چلنے دیتے ملک میں جمہوریت کو؟مسئلہ کیا ہے عوام کی حاکمیت میں؟ کون ترقی نہیںکرنے دیتا؟میں انکی باتیں سن کر چپ ہو گیا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا کسی سوال کا۔
ارشد محمود کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ ایک فرم میں آڈیو وڈیو انجنئیر ہیں۔ صحافت کے میدان میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ سوال کرنا جانتے ہیں۔ جواب سننے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ان کا ووٹ بھی نواز شریف کے حق میں نکلا۔ یہ بھی بہت آزردہ تھے نااہلی کے فیصلے پر۔ محمد اقبال اور احمد فہیم دونوں الیکٹرک انجینئر ہیں۔ صالح مسلمان ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا خواب دیکھتے ہیں۔ ملک کی ترقی چاہتے ہیں نواز شریف سے بے پناہ عشق کرتے ہیں۔ یہ بھی جمہوریت کے تسلسل کے خواہاں ہیں۔ دونوں نے ووٹ پی ایم ایل کو دیا اور آئندہ الیکشن میںبھی چھٹی لے کر ووٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملک شہروز ایک کمپنی میں کمیونکیشن انجنئیر ہیں۔ نوجوان ہیں اور چلبلے بھی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنا ووٹ مسلم لیگ ن کو دیا ۔ ان کو بھی حالیہ فیصلوں کا بہت غم ہے۔ یہ اپنی بساط کے مطابق جمہوریت کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں ۔ ٹوئیٹر اور فیس بک کے رسیا ہیں۔ اپنے خیالات کا پرچار سوشل میڈیا پر کھل کر کرتے ہیں۔ سنیعہ ریاض ابوظہبی میں ہوتی ہیں۔ انتہائی خوش اخلاق اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ نیورو فریشن ہیں اور اسی مضمون میں مزید تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان کو کسی جماعت سے کوئی خاص شغف نہیں ہے لیکن پاکستان سے بے تحاشہ محبت ہے انکے مطابق ملک بھی انسانی جسم کے نیورو سسٹم کی طرح ہے۔اگر سسٹم چلے گا تو ملک درست چلے گا ورنہ سانس رک جائیگا۔ دم گھٹ جائے گا۔ ان سب احباب کا تذکرہ اس لئے ضروری تھا کہ ان لوگوں کو پتہ چلے کہ جو کہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی سب پی ٹی آئی کے ووٹر ہیں وہ غلط ہے ، مجھے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو خان صاحب کے طرز سیاست کا حامی ہو۔ نفرت کے پھیلانے کاساتھی ہو۔ آمریت کا دل دادہ ہو۔ سب سسٹم کی بات کرتے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ سسٹم کے ثمرات دیکھ چکے ہیں۔ انسان کی قدر جان چکے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کی میاں صاحب کی نااہلی کے بعد عمران خان اب پنجاب میں جلسہ کرکے عوامی غیض و غضب کا سامنا نہیں کر سکتے۔ کے پی میں عائشہ گلالئی کے معاملے کے بعد بہت غصہ ہے وہاں بھی جلسہ ممکن نہیں ہے۔ دبئی کے بار ے میں سوچا تھا تو ان محب وطن لوگوں سے مل کر پتہ چلا یہاں بھی خاں صاحب کی طرز سیاست کا کوئی طرف دار نہیں ہے۔ اب سوچنا پی ٹی آئی کو ہے کہ پنجاب ، کے پی اور دبئی کو چھوڑ کر خاں صاحب اگلا جلسہ کہاں کریں ؟

تازہ ترین