• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آج کل ہماری سیاست اور ریاست جمہوریت کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ہماری ستر سال کی تاریخ میں اب جمہوری دور زیادہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ جمہوری دور میں ہی شخصیت پرستی کو جمہوری اقتدار میں شامل کرلیا گیا۔ اب تک سب سے کامیاب جمہوری دور سابق صدر آصف علی زرداری کے زمانہ صدارت میں رہا۔ انہوں نے اپنے دو وزیراعظموں کو شاہراہ جمہوریت پر قربان کردیا اور جمہوری طرز حکومت کے فروغ میں اپنی حیثیت منوا لی۔ ستر سال کی تاریخ میں آمریت کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ محسوس کیا گیا اور دوسری طرف سیاسی اشرافیہ جو اب جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا مضبوط سیاسی گروہ بن چکا ہے وہ بھی جمہوریت کی جنگ میں بڑی سنجیدگی سے غیر سنجیدہ سیاسی کردار ادا کر رہا ہے۔ جمہوریت ایک معاشی نظریہ نہیں یہ ایک سماجی رویہ ہے۔ اب سماج میں بدلائو تو نظر آتا ہے مگر ہمارے سماجی اور جمہوری رویئے مثبت نظر نہیں آتے۔
آج کل کے جمہوری دور میںہماری سینیٹ جس کو عوام کے قومی اسمبلی کے ممبران منتخب کرتے ہیں پھر اکثریت کے تناظر میں چیئرمین کا چنائو ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سینیٹ کے چیئرپرسن رضا ربانی ہیں ۔ پرانے جیالے ہیں اور ان کی انفرادیت کتاب پرستی ہے۔ ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ کچھ جانکاری تو ملتی ہے۔ اس سے پہلے ’’یاد جمہوریت‘‘ اور ’’دستورگلی‘‘ کے لئے سینیٹ کے ممبران نے تقریب کا انتظام کیا اور نیک نامی کمانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف ان کی پارٹی کے صدا بہار لیڈر اور سیماب صفت سابق صدر آصف علی زرداری ان کو نظریاتی نہیں مانتے اور نظریہ کے حوالہ سے سینیٹ میں اپنے ممبر اعتزاز احسن کو فوقیت دیتے نظر آتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی شخصیت کافی پراسرار سی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی جنگ بھی پراسرار سی ہے۔ ہماری جمہوریت پر ہمارا پرانا مہربان امریکہ کبھی بھی خوش نہیں ہوا۔ وہ ہمارے سیاسی لوگوں میں نیک لوگوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ وہ امداد دینے کے بعد اخباروں میں اشتہار بھی لگواتا ہے کہ اگر ان کی امداد میں خورد برد ہو تو براہ راست امدادی ملک کو خبردو۔ وہ کبھی بھی اطلاع پر کارروائی نہیں کرتا۔ اس کے اپنے ملک میں جمہوریت کے ساتھ جو ڈرامہ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ صدر امریکہ کو غیر جمہوری شخص کے طور پر شناخت کیا جارہا ہے اور کوشش ہو رہی ہے کہ ان کو نااہل قرار دے دیا جائے۔
کمال کی بات ہے جمہوری دور میں عوام کی اکثریت محروم مہربانی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہمسائے میں دنیا میں بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار جس طرح سے سرکار چلا رہی ہے مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کتنا جمہوریت دوست ہے۔ ایک طرف انتخابات ہوتے ہیں اور لوگوں کے نمائندے اسمبلی میں آتے ہیں۔ دوسری طرف لوگ آزادی اور خودمختاری کے لئے گرفتاریاں دے رہے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ تشدد کر رہی ہے۔ تو وزیر اعظم بھارت کو خیال آتا ہے کہ کشمیری جنتا کو محبت کی ضرورت ہے۔ ہائے یہ ضرورت ہی تو مار دیتی ہے اور جمہوریت کی ضرورت ہی عوام کو بے بس اور پریشان کرتی ہے۔ امریکہ بہادر کو کشمیر کے لوگ نظر نہیں آتے وہ ان کے لئے غیر جمہوری عینک استعمال کرتا ہے اور پاکستان کے لئے اس کے پاس ایک اور طرز کی جمہوری نظر ہے۔ اب کی بار افغانستان کےحالات نے امریکی فوج کو ویت نام کے بعد سب سے زیادہ ناکام دکھایا ہے اور اس کو غصہ پاکستان پر ہے اور ہم بھی مفت میں اس کے غصہ کو اہمیت د ےرہے ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے بھی امریکی ناراضی پر ردعمل دیا اور موصوف نے بیان جاری کیا ’’امریکہ نے غلطی کی تو پاکستان ان کے فوجیوں کا قبرستان بنے گا‘‘۔ ان کو کون بتائے پاکستان امریکہ سے جنگ نہیں کر رہا۔ اور امریکہ کو ہلہ شیری دینے کی ضرورت بھی نہیں۔ جمہوری دور میں ایسا بیان دینا ضروری ہوتا ہے اور چیئرمین نے اپنا حصہ ڈال دیا خواہ اس کا کوئی بھی نتیجہ نکلے۔ بس ہم سب لوگوں کے لئے امتحان دینا ضروری ہوتا ہے خواہ تیاری ہو یا نہ ہو۔ امتحان ہی تو عوام کو صبر اور ہمت دیتا ہے۔ نئی امریکی پالیسی پر ہماری سرکار مسلسل غور و فکر میں مبتلا ہے اور امریکی پالیسی کے آتے ہی ہمارے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے اپنے پہلے غیرملکی دورہ کا آغاز کیا۔ اگرچہ اس دورہ کا منصوبہ تو اس ہی دن شروع ہوا تھا جب آپ جناب کو میاں نواز شریف کی جگہ وزیر اعظم بنایا گیا۔ ہمارے وزیر اعظم جناب عباسی زندگی کے ابتدائی عملی سال سعودی عرب میں گزار چکے ہیں اور سعودی اہم لوگوں سے تعلق خاطر بھی ہے۔ اب نئی امریکی پالیسی کے بعد دفتر خارجہ کے مشورے کے بعد سعودی عرب سے بات چیت ضروری ہوگئی تھی دوسری طرف سعودی عرب کو بھی قطر کی وجہ سے امریکی پالیسی پر تحفظات ہیں۔
میاں نواز شریف کی سرکار کے آخری دنوں میں سعودی عرب سے گرم جوشی کمزوری کا شکار تھی کچھ غلط فہمیاں جنرل راحیل شریف کے حوالہ سے بھی تھیں اب نئے وزیر اعظم کو موقع مل گیا ہے کہ ان تحفظات میں تجدیدنو کی جائے۔ اگرچہ امریکی امداد کی بندش کے بعد ہم کو اپنے اخراجات کے بارے میں خود کفالت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، سعودی عر ب سے مالی امداد کی ضرورت نہیں۔ مگر وزیر خزانہ کے سابقہ اقدامات کے بعد ملکی معیشت شدید خدشات سے دوچار ہے۔ نئے وزیر اعظم کے لئے حالات اتنے آسان نہیں ہیں۔ ایک طرف ملکی سیاست طوفانی کیفیت سے دو چار ہے اور ملکی عدالتی نظام سیاست کی نذر ہو رہا ہے اور سب کچھ ایک جمہوری دور میں ہو رہا ہے۔ ہمارے سیاسی لوگوں میں سے صرف کپتان عمران خان اور سابق صدر آصف علی زرداری نے واضح طور پر امریکی پالیسی پر اظہار کیا اور شاہد خاقان عباسی کی سرکار کو اخلاقی مدد فراہم کی ہے اور حوصلہ دیا ہے کہ امریکی پالیسی کا جواب دینا ضروری نہیں اور ایک ہی جواب کافی ہے اگر وہ دوبارہ کہتے ہیں ڈومور تو بس آپ کا جواب ہو نومور (Do more sorry no more)
ہمارے قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحب کے معاملات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اس دفعہ جب اجلاس شروع ہوا تو ممبران کی تعداد بہت ہی کم تھی اور چار درجن سے زیادہ کابینہ کے ممبران کی اکثریت غیر حاضر تھی اور ایسی صورت میں مسلم لیگ سرکار کے چیف ویپ کو شدید شرمندگی کا سامنا تھا۔ حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ کا بیانیہ بہت ہی پُرآشوب تھا اور اسپیکر عزت مآب ایاز صادق کا چہرہ ندامت سے بھرپور لگا۔ مگر اشرافیہ اورسیاسی لوگوں کا گروہ اسمبلی کی اہمیت کو ہمیشہ ہی نظر انداز کرتا آیا ہے۔ اس اسمبلی نے آج تک عوامی مسائل کو اہمیت نہیں دی اور اس نئی امریکی پالیسی پر اجلاس بلانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
چیئرمین سینیٹ نے حالیہ دنوں میں ایک کتب خانہ کے لئے تقریب کا اہتمام بھی کیا۔ کوشش اور عزم تو کمال کا ہے کیونکہ جناب کتاب پرست اور اصول پرست ہیں۔ اس لئے کتب خانہ کی تقریب ایک سنگ میل ہوسکتا ہے ہماری سینیٹ کے تمام ممبران کو مشہور کتاب ’’کتابیں اپنے آباء کی‘‘ پڑھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے کچھ روشنی سی ہے۔

تازہ ترین