• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی افغان پالیسی کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر حملہ یا تیز ترین سرجیکل اسٹرائیک کا عندیہ دے کر کیا ہے۔ اِس پالیسی میں امریکی صدر نے افغانستان میں بھارت کےمعاشی اور تعلیمی میدان میں کردار کا بھی تعین کردیا ہے جوکہ دراصل فوجی ہوگا۔ اس لئے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے جبکہ بھارت کی یہ خواہش ہے کہ وہ پاکستان پرمشرقی اور مغربی سرحدوں سے دبائو ڈالے۔ پاکستان نے ٹرمپ کے بیان اور پالیسی کو یکسر مستر کردیا۔ بھارت امریکی ایما پر توسیع پسندانہ پالیسی پر گامزن ہے اور لداخ اور سکم میں اس وقت چینی افواج سے حالت تصادم میں ہے۔ بھارت کی تن تنہا پاکستان اور چین کو دبائو میں لانے کی پالیسی ناکام ہوتی نظر آئی تو امریکہ بھارت کی مدد کو آیا اور اس کا افغانستان میں کردار متعین کردیا۔ پاکستان نے امریکہ کے الزامات کو رد کردیا جبکہ چین نے پاکستان کی خدمات کو سراہا ہے، روس نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کا عمل خطے کو عدم استحکام کا شکار کردے گا۔ ممتاز شاعر منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ شاید صورتِ حال اس طرح کی ہے کہ ’’کچھ بھارت کو بھی مرنے کا شوق ہے‘‘ کیونکہ جس جگہ وہ جارہا ہے سلطنتوں کا قبرستان ہے، بھارت کو امریکہ کی حمایت تو حاصل ہوگی اور وہ وداغان کی پٹی سے سی پیک کو متاثر کرنے کی کوشش کرے گا اور بھارت نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اُس کو افغانستان پر حکومت کرنے کا تجربہ ہے اور وہ افغانیوں کی نفسیات کو سمجھتا ہے، مگر یہ کھیل بہت خطرناک ہے، اِس میں بھارت اور امریکہ دونوں ہی پھنسنے جارہے ہیں کیونکہ امریکہ اور نیٹو کی مسلح افواج وہاں مجاہدین پر قابو نہ پا سکی تو بھارتی کیسے قابو پاسکیں گے، البتہ بھارتیوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد کچھ تربیت ضرور ہوجائے گی۔ وہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کررہا ہے اور پاکستان میں بھی دہشت گردی ایکسپورٹ کررہا ہے۔ ہمیں انتہائی خوشی ہوئی جب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ٹرمپ کے بیان پر کہا کہ اگر ٹرمپ پاکستان کو امریکی فوجیوں کا قبرستان بنانا چاہتا ہے تو خوش آمدید۔ انہوں نے یاد دلایا کہ امریکی صدر دھمکی دینے سے پہلے ویت نام اور کمبوڈیا کو نہ بھولیں اور پاکستان تو اُس سے کہیں زیادہ اُن کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر پر واضح کردیا کہ نہ ہمیں آپ کی امداد چاہئے اور نہ ہی سامانِ حرب، ہم اپنی خدمات کا اعتراف چاہتے ہیں، ہم نے افغانستان کیلئے بہت کچھ کیا، امریکہ کی خوشی کیلئے نہیں بلکہ ایسااپنے قومی مفاد میںکیا ہے۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے دورئہ واشنگٹن ملتوی کردیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ پہلے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیں گے اور چین اور روس کا دورہ کریں گے۔ امریکہ کے کئی تھینک ٹینکس کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے اگر مزاحمت کی تو وہ امریکی مفادات کو ہدف بنا سکتا ہے، پاکستان نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں معاشی طور پر کسی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، کیونکہ ہم امریکہ سے 2010ء سے علیحدہ ہونا شروع ہوگئے تھے اور امریکہ نے 2011ء میں تین بڑے حملے کئے ایک امریکی کرائے کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ذریعے، دوسرا 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں مبینہ اسامہ بن لادن کی قیام گاہ پر حملہ اور تیسرا 26 ستمبر 2011ء کو سلالہ پر حملہ جس میں ہمارے 26 فوجی شہید ہوئے تھے۔ اس سے پہلے 2005ء میں ہارپ ٹیکنالوجی استعمال کرکے پاکستان میں مصنوعی زلزلے سے حملہ کیا گیا تھا اور 2010ء میں سیلابی حملہ کیا، پھر بھی جن لوگوں نے ایبٹ آباد پر حملہ کیا تھا وہ سب کے سب 6 اگست 2011ء کو چنیوک ملٹری ہیلی کاپٹر کے گر جانے پر افغانستان کی سرزمین پر مارے گئے۔ پھر سلالہ کے بعد جلال آباد میں 50 امریکی فوجی بھی مارے گئے۔ اب یہ پھر لڑنے کو چلے ہیں، اس میں وہ بھارت کو شامل کررہے ہیں مگر اب حالات اور بھی بدل گئے ہیں۔ روس، چین اور ایران بھی اُن کی راہ میں مزاہم ہوں گے اور امریکی و بھارتی نقصانات میں شدت آئے گی۔ ایک اور سرد جنگ کی ابتدا ہو چکی ہے اور شاید روسی افغانستان میں ہی اپنی شکست کا بدلہ لے لیں ۔ ہم روس کے اس وجہ سے بھی شکر گزار ہیں کہ 20 مئی 2011ء کو روسی آرمی چیف پاکستان سے یکجہتی کے اظہار کیلئے آئے تھے اور یوں پاکستان اور روس کے درمیان دوستی کا راستہ کھل گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص افغانستان سے اپنی افواج نکالنا چاہتا تھا وہ یکدم آمادہ جنگ کیوں ہوگیا، اس لئے کہ کیمپ ڈیوڈ کے اجلاس میں امریکی انٹیلی جنس نے اُن پر راز افشا ہو گیا کہ افغانستان میں 4 ٹریلین ڈالرز کی معدنیات ہیں اور وہ چین اکیلا لے جائے گا، اس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیٹو کے ساتھیوں کی نیت میں فتور آیا ، امریکی صدر نے جنرلوں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو ملٹری افواج کی تعداد بڑھا سکتے ہیں اگرچہ اُن کا ارادہ خفیہ آپریشن کا تھا وہ شاید کریں بھی اور شاید وہ پاکستان میں بھی سرجیکل اسٹرائیک کے حوالے سے کوئی کارروائی کریں، ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے، اُن کو سخت وارننگ دیدی گئی ہے مگر امریکی سفیر پاکستان نے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو امریکی پالیسی کی وضاحت کی ہے اور پاکستان کی خدمات کی تعریف بھی کی ہے مگر پاکستان امریکہ کی کھلی دھمکی اور اس کی شدت اور اثرات سمجھتا ہے۔ امریکی تاریخ کی طویل ترین افغان جنگ 16 سال سے جاری ہے، اس کو امریکہ کو ختم کرلینا چاہئے تھا مگر امریکی صدر نہ مان سکے، اگرچہ کئی دانشور یہی کہہ رہے ہیں کہ جو انداز ٹرمپ نے اختیار کیا ہے وہ ویت نام کی پسپائی کے وقت جیسا ہے۔ ٹرمپ نے یہ پیغام بھی دیا کہ وہ افغانستان کی قومی تعمیر نہیں کریں گے جس کی وجہ سے امریکی افغان اتحادی بھی ناراض ہوجائیں گے اور وہ افغان اپنےردعمل کا اظہار عین جنگ کے عروج کے دوران کریں گے۔ امریکہ کب افغان قوم کی تعمیر کررہا تھا بلکہ پہلے بھی افغان کو تباہ کررہا تھا اور اب بھی کرپشن، ہیروئن، اسلحہ، مسلسل اموات، ظلم و بربریت کے ذریعے تباہی میں ملوث ہے۔ پاکستان پر ہمیشہ کی طرح امریکہ نے یہی الزام لگایا کہ پاکستان حقانی گروپ کی حمایت کررہا ہے۔ امریکی صدر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان بلین اور بلین ڈالرز دے رہے ہیں مگر پاکستان ان کے ذریعے ہمارے خلاف دشمن کی مدد کر رہا ہے جن سے ہم لڑ رہے ہیں جبکہ ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ امریکہ ہی ہے جس نے القاعدہ اور داعش بنائی، جس نے روس کو شکست دینے کے لئے طالبان تیار کئے، اب امریکہ اس کا الزام پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں دُنیا کے تین ممالک میں جذباتی حکمران ہوگئے ہیں، اسرائیل تو شروع دن سے انسانیت کے خلاف ہے اور اب ٹرمپ اور مودی آگئے ہیں جو دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل کر انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ شمالی کوریا سے الگ تنازع ہے۔ تاہم پاکستان پر امریکہ حملہ کرنے کی جرأت تو نہیں کرے گا البتہ اچانک خفیہ سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے۔ جس کا ذکر ٹرمپ منتخب ہونے کے بعد اپنی پالیسی میں کر چکے ہیں کہ وہ اپنی افواج کو کسی جنگ میں نہیں پھنسائیں گے۔ خفیہ کارروائی میڈیا کو بے خبر رکھ کر کریں گے۔

تازہ ترین