• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کی شہادت یہ ہے۔پگڑی کو وقار واستقلال باچاخان کی درویشی اور جمال وجلال شیرشاہ سوری کی بے باکی نے بخشا۔تاریخ نے لیکن وہ سیاہ دوربھی دیکھا جب ڈالر و ریال پر پلنے والے بھی پگڑی پہنتے تھے۔آج مذہب و قوم فروش بھی پہنتے ہیں اور .....اور عائشہ گلالئی بھی پہننے لگی ہیں۔ صاحبِ سیف و قلم خوشحال خان خٹک کا کہنا مگر یہ ہے کہ پگڑی ہر کوئی پہنتا ہے مگر اِس کا اہل کوئی کوئی ہوتا ہے۔
پشتو میں ایک کہاوت ہے جس کا اصل جملہ ہم یہاں نقل نہیں کرتے، مفہوم یہ ہے کہ اگر علاقے میں مشہور ہونا چاہتےہو تو گائوں کی مسجد میں کچرا پھینک دو، یعنی جو بھی دیکھے گا پوچھے گا یہ نازیبا حرکت کس نے کی ہے۔ جواب آئے گا فلاں نے....یوں موصوف کی شہرت محلے و گلی کوچوں سے نکل کر پورے علاقے کو جالپیٹ لے گی۔ اِن دنوں پاکستانی سیاست کا بھی یہی حال ہے، ہر کسی کو ایسے ایشو کی تلاش رہتی ہے جو کسی طرح اس کی رونمائی کا سبب بن جائے، خواہ اس میں گھٹنوں گھٹنوں ذلت ہی کیوں نہ ہو.....
آپ اور ہم جانتے ہیں کہ پگڑی نہ صرف پختونوں بلکہ مختلف مذاہب و قبائل کی عزت و توقیر کی علامت ہے۔ لیکن اس پگڑی کو بسا اوقات یہی قبائل ہی بے توقیر کرتے ہیں ۔ آ پ کو یاد ہوگا کہ افغانستان میں  پگڑی میں بم چھپا کر کتنے بے قصور انسانوں کو شہید کیاگیا۔ واقعہ یہ تھا کہ حامد کرزئی کے بھائی ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے جب ان کی نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی تو ایک حملہ آور جس نے اپنی پگڑی میں بم چھپا رکھا تھا، دھماکہ کرکے متعدد افراد کو شہید کردیا ۔ اسی طرح قندھار کے مئیر سے ملنے والا ایک دہشت گرد بھی پگڑی میں بم چھپا کر لایا تھا۔ انہی وجوہات کی بنا پر اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے علما پر زور دیا تھا کہ وہ ’پگڑی بموں‘ کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ جہاں روایات کی پامالی ہے وہاں اسلامی اقدار کے بھی خلاف ہے۔ شاید حامد کرزئی بھول گئے تھے کہ یہ تو اُسی تربیت کا نتیجہ ہے جو ایک وقت میں کوئٹہ میں بیٹھ کریہ سابق مجاہد حامد کرزئی بھی اپنے ہی افغان بھائیوں کو قتل کرنے کیلئے ایسے ہی نام نہاد مجاہدین کو دیتے تھے۔
تاریخ کا یہ جبر ہے یا زمانے کا انتقام! کہ وہ پگڑی جسے سکندر اعظم اور سروسٹن چرچل نے سلام کیا تھا،آج محض مفاد کیلئے زیرنمائش ہے۔ ہمارے قبائل کے ’ملکوں‘ نے یہ پگڑی ہر طاقتور کو اپنی ذاتی طاقت میں اضافے کیلئے پہنا کر کیا منحوس روایت کو عام کیا۔
اگرچہ یہ امر باعث طمانیت ہے کہ فاٹا کے حالیہ منتخب نمائندے جہاں فاٹا کی پختون خوا میں شمولیت کی ضرورت سے آگاہ ہیں وہاں وہ پگڑی کے وقار کا بھی پاس رکھے ہوئے ہیں، وگرنہ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب کوئی بھی ایرا غیرا قبائل جاتا، موقع پرست ’’ملک‘‘ اپنے مفادات کے لئے پگڑی کو اس کے سر پر رکھ دیتے، جسے لمحہ بھر بعد وہ گود میں رکھتا پھر کسی کے حوالے کردیتا......یہی افریقی کرکٹر ڈیرن سیمی نے بھی کیا۔پی ایس ایل فائنل میں یار لوگوں نے کپتان ڈیرن سیمی کو جو پگڑی پہنائی تھی وہ موصوف ساتھ لے جانے کی بجائے پاکستان ہی میں چھوڑ گئے۔ یاد دلانے پر ’’استاد‘‘ کا کہنا تھا ’’پی ایس ایل کے فوری بعد ہانگ کانگ روانہ ہوگیا اور جلدی میں پگڑی رہ گئی، اگلی مرتبہ ٹائٹل کے دفاع کے لئے آئوں گا تو پھر دوسری پہننے کا موقع ملے گا.....‘‘ اے شاباشے! دولت و دیگر تحائف تو نہیںبھولے ، پگڑی بھول گئے.....پھر پختونوں کی بے حسی پر یقین اتنا کہ اگلی مرتبہ بھی اسی دھوم دھام کی طلب ہے...... ہمیں بھی یقین ہے کہ’ نودولتیے‘ اپنی نمود کیلئےتماشے و مسخرے سجانے میں پہلے سے بھی پرجوش ناچتے نظر آئیں گے۔
خوش حال خان خٹک کہتے ہیں ’’جان جائے، جائیداد جائے، مال و اسباب جائے، مگر ناموس کا شملہ اونچا رہے.....یہاں ڈیری سیمی صاحب سب ساتھ لے گئے مگر شملہ (سفید پگڑی) بھول گئے.....جب ہم پختون خود’ شملہ ‘کی قدر و منزلت نہیں جانتے، تو بھلا دوسروں سے اس کی توقع کیونکر عقل مندی ہو سکتی ہے۔ آپ دیکھیں،سکھ اپنی پگڑی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔تین مرتبہ لوک سبھا (بھارت )کے رکن رہنے والےوریندر سنگھ کو امریکہ نے دورے کی دعوت دی تھی ،جب وہ ویزے کے لئے امریکی سفارت خانے گئے، تو انہیں کہا گیا کہ سیکورٹی مجبوری ہے،آپ پگڑی اُتار دیں ۔اُ ن کا جواب تھا...میںایسا نہیں کرسکتا ، پگڑی میر ی شان اور میرے ملک کی عزت ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت خانے نے خود انہیں امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی ، اس نے ویزہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ انہیں ایسے کسی دورے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔
خوشحال خان خٹک کی ایک شہرہ آفاق کتاب ’’دستار نامہ‘‘ ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع پگڑی ہے۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خوشحال خٹک نے اس موضوع سے کس قدر انصاف کیا ہوگا۔وہ خوشحال خان جن کی افغان شناسی،حق گوئی و بےباکی سے متعلق جاوید نامہ میں حضرت اقبال یوں اقرارکرتے ہیں۔
خوش سرود آں شاعر ِافغاں شناس
آنکہ بنید ، باز گو ید بے ہر اس
آں حکیم ملتِ افغانیاں
آں طبیب علتِ افغانیاں
رازِ قومے دید و بے باکانہ گفت
حرفِ حق با شوخئی رندانہ گفت
میر عبدالصمدکی تحقیق ’خوشحال اور اقبال ‘کے مطابق نثر میں علامہ اقبال نے ماسوائے خوشحال خان خٹک کے، کسی اور شاعر کی تعریف نہیں کی ہے۔دستار نامہ میں بابا نے جس پگڑی کا ذکر کیا ہے یہ وہ نہیں ہے جسے جب جی چاہے کوئی پہن لے اور جب چاہے کچرا کنڈی میں جا پھینک دے.....یہ پگڑی ایک ایسے قائد کی پگڑی ہے جو اس کی عزت و تعظیم جانتا ہے اور جو اس کی حرمت کی پامالی سے قبل خود اس کی خاطر پامال ہونا اس سے بھی زیادہ جانتا ہے۔ ہمارے ہاں میکائولی کی ’’دی پرنس‘‘ کا بہت تذکرہ کیا جاتا ہے۔ لیکن دی پرنس میں  شاطرانہ چالوں کو ایک قائد کی کامیابی کا راز بتایا ہے۔ لیکن خوشحال خٹک کے دستار نامے میںظاہر و باطن کے یکساں ہونے کو ایک قائد کا معیار ٹھہرایا گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم خٹک کے مطابق دستار نامہ میں 20 ہنروں اور 20خصلتوں پر مشتمل وہ مضامین ہیں جن میں سیاست، تہذیب، تاریخ، اخلاقیات، فن سپاہ گری، شکار ، فنون لطیفہ وغیرہ کے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ خوشحال خٹک نے انہی ہنروں اور عادتوں کو ایک قائد اور رہبر کے لئے ضروری خیال کیا ہے۔ یہ کتاب بہت اہم ہے جو درحقیقت خوشحال بابا کے اس شعر کی تفسیر ہے۔
چے دستار تڑی ہزار دی
دَ دستار سڑی پہ شمار دی
بابا کہتے ہیں کہ پگڑی تو ہزاروں لوگ باندھتے ہیں مگر اس کے اہل معدودے چند ہی ہوتے ہیں۔
محترمہ عائشہ گلالئی نے بھی اب پگڑی باندھ لی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ پگڑی پہن کر وہ جس ایوان میں جاتی ہیں کیا اس ایوان میں عمران خان نے انہیں نہیں بھیجا تھا؟ خوشحال خان کا کہنا ہے کہ پگڑی کاتقاضا یہ بھی ہےکہ اسے پہنے والا امانت میں خیانت نہ کرے۔ تو کیا عائشہ صاحبہ یہ نہیں  سمجھتیں کہ یہ نشست عمران خان کی امانت ہے۔تاریخ کی شہادت یہ ہے۔پگڑی کو وقار واستقلال باچاخان کی درویشی اور جمال وجلال شیرشاہ سوری کی بے باکی نے بخشا۔تاریخ نے لیکن وہ سیاہ دوربھی دیکھا جب ڈالر و ریال پر پلنے والےبھی پگڑی پہنتے تھے۔آج مذہب و قوم فروش بھی پہنتے ہیں اور .....اور عائشہ گلالئی بھی پہننے لگی ہیں۔ صاحبِ سیف و قلم خوشحال خان خٹک کا کہنا مگر یہ ہے کہ پگڑی ہر کوئی پہنتا ہے مگر اِس کا اہل کوئی کوئی ہوتا ہے۔

تازہ ترین