• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر امریکی حکومت کے نئے اقدامات اور اعلانات عملاً وہی ہیں جو پچھلے 20،30سال میں مختلف امریکی صدور اور حکام کرتے رہے ہیں،بس اس دفعہ چہرہ مسٹر ٹرمپ کا ہے جو سیاسی امور سے زیادہ کارپوریٹ ورلڈ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے پاکستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جتنے بھی امریکی صدور آئے وہ سب کے سب بہرحال اپنے سیاسی بیک گرائونڈ اور سیاسی امور سے بھرپور آگاہی رکھتے تھے۔ اب کی بار امریکی عوام کی قسمت میں ایک ایسا صدر لکھا تھا جس کو سیاسی امور پر وہ عبور حاصل نہیں ہے، جس سے امریکی بیوروکریسی اور خاص کر مسلمان اور پاکستان دشمن لابی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نئی امریکی جارحانہ پالیسی کے بارے میں ہمارے حکام اور سیاستدان سب اپنا اپنا موقف دے رہے ہیں، بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کسی تاخیر کے بغیر کم از کم عید سے پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائیںاور اس میں صرف اور صرف پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل اور پاکستان پر اس کے اثرات کے بارے میں متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں اور اس کے بعد وہ مختلف ممالک کے پاکستان میں مقیم سفیروں سے مشترکہ ملاقات کرکے انہیں افغانستان کے لئے امریکی دوستی کے حوالے سے خدمات سے آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ محکمہ خارجہ کے حکام کے توسط سے دنیا میں امریکہ اور بھارت سمیت ہر ملک میں مقیم پاکستانی سفارتی حکام کو ہدایات جاری کریںکہ وہ دنیا کو بتائیں کہ پاکستان کے امریکہ پر کیا کیا احسانات ہیں۔ اس کے باوجودیہودی اور بھارتی لابی کے دبائو کی وجہ سے ہمیشہ دونوں ممالک میں رسمی باتوں اور نعروں کے سوا عملاً عدم اعتماد یا اعتماد کا فقدان بھی رہا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہے، مگر اس کے باوجود وہ بھارتی اثر و رسوخ وہاں بڑھانے میں بھارت کو بھرپور سپورٹ کرتا ہے، جو عملاًپاکستان کو مزید بیرونی خطرات سے دو چار کرنے اور ہماری سلامتی کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے پاکستانی فوج اور اس کے قائدین امریکی اور بھارتی چالوں کو سمجھتے ہیں، اس لئے بیرونی یا داخلی طور پر ان کی ہزار کوششوں کے باوجود پاکستان کی سلامتی کے لئے کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں ہے، تاہم قومی سلامتی کے حوالے سے کشمیر ہو یا افغانستان، پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو بلا امتیاز اکٹھے ہو کر ایک ہی موقف اختیار کرنا ہوگا، جس سے قوم اور خاص کر ہماری نوجوان نسل کا مورال بلند ہوگا۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عباسی کو نئی قومی میڈیا پالیسی پر بھی غور کرنا چاہئے اور موجودہ حالات کے پس منظر میں معیشت کی پریشان کن صورتحال بہتر بنانے کے لئے بھی آزاد ماہرین سے سوچ بچار کرکے نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ مجھے ذاتی طور پر یاد ہے کہ وزیر اعظم کے والد خاقان عباسی صاحب بڑے کمال کے آدمی تھے، انہوں نے ضیاء دو ر میں وزارت پیداوار چلانے کے دوران سرکاری اداروں کے حالات کار بہتر بنانے کے لئے مشاورت کا ایک ایسا عمل شروع کیا تھا جس سے چند سالوں میں تباہ حال قومی ادارے آہستہ آہستہ بحالی کی طرف چل پڑے تھے۔ ان کے اوجڑی کیمپ میں جان بحق ہونے کے بعد چند سال میں ہمارے قومی اداروں کا کیا حال ہوا۔ وہ سب کے سامنے ہے کہ اب ان کے بیٹے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کراچی کے اپنے حالیہ دورہ میں پی آئی اے اور پاک ا سٹیل ملز کو ایک ایک روپے میں فروخت کرنے یا پرائیوٹائز کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ بہرحال ان کے والد خاقان عباسی کہا کرتے تھے کہ ہمیں معاشی اور سماجی ترقی کے لئے پہلے اپنے گھر کے حالات بہتر بنانے ہوں گے۔ اس کے بعد بیرونی سپورٹ خود بخود بڑھتی جائے گی۔ اس سوچ کے تحت انہوں نے اپنے دور میں مری کے تقریباً تمام علاقوں کے ہر گھر کے ایک ایک اور اس سے بھی زیادہ افراد کو سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھجوایا جس سےمری کے لوگوں کے حالات کار اور معاشی زندگی کا نقشہ بھی بدل گیا۔ اب وزیر اعظم کو بھی چاہئے کہ اپنے والد گرامی کی سوچ کے تحت پہلے داخلی حالات اور خاص کر داخلی معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ جس میں زراعت سمیت مقامی صنعتوں کی بحالی اور برآمدات میں اضافہ ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ اس سے مسلم لیگ (ن) 2018کے متوقع الیکشن جیت سکتی ہے ورنہ ان کی موجودہ اکثریت میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔

تازہ ترین