• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلوم نہیں کہ ہماری یہ نفسیات کیوں بن چکی ہے کہ ملک کے اندر ہونیوالی سیاسی ہلچل یا سرگرمیوں کو ملک کا کل حصہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور دیگر تمام ادارے نظر انداز کردیئے جاتے ہیں۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم نے ہر ادارے کو سیاست کی نظر کر دیا ہے اور ان میں سیاسی مداخلت ہمارے سیاستداںاور حکمراں اپنا ’’بنیادی حق‘‘سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں کوئی ٹھوس نظام نہیں بنا سکے، سونے پہ سہاگہ ہمارا میڈیا جلتی پہ تیل کا کام کرہا ہے، جسکی وجہ سے ہر ادارہ نہ صرف اپنا اعتماد کھو چکا بلکہ اسکے نتیجے میں ہرو قت بے یقینی کی کیفیت ہے اور ہر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ جہاں کہیں اگر کوئی تھوڑا بہت سسٹم موجود ہے ہم اسکو ختم کرنے کے درپہ ہیں اور ایک مافیا اس نظام کو کرپٹ بنانے کیلئے شہد کی مکھی کی طرح مصروف عمل ہے۔ آج آپکو ایک ایسے سسٹم کو زمین بوس ہوتے دکھاتے ہیں جسکے حوالے سے حکمرانوں کا کہنا ہے یہ اُنکا ’’پہلا پیار ‘‘ہے۔ یہ پہلا پیار تعلیم ہے، جسکو تباہ کرنے کیلئے آئے روز ہم نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں، ان میں سے ایک تجربہ انٹری ٹیسٹ کا ہے۔
ایک وقت تھا جب پنجاب بھر کے میٹرک کے امتحانات بھی پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام ہوتے پھر آبادی اور تعلیم کا رجحان بڑھا تو ایجوکیشن لاہور بورڈ بنا دیا گیا اور کرتے کرتے پنجاب بھر میں 9بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہوگئے۔ لیکن ان میں اضافے کیساتھ ساتھ شکایات کے انبار لگ گئے۔ بوٹی اور نقل مافیا باقاعدہ ایک پروفیشن بن گیا۔ ایک سابق وزیر تعلیم مرحوم چوہدری ممتاز حسین نے اسکو ختم کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کی اور کالجوں میں میرٹ کے نظام کو متعارف کروایا اسکے بعد اُسوقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے سامنے 1998ء کو رکھی گئی تجویزپر کہ نقل مافیا سے چھٹکارا حاصل کرنے اور مختلف بورڈز کی مارکنگ کے فرق کو ختم کرنے کیلئے ایم بی بی ایس اور ڈینٹل کالجز میں داخلہ کیلئے انٹری ٹیسٹ کو متعارف کروایا گیا، جسکی ذمہ داری انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کو سونپی گئی یہ سلسلہ 2007ء تک جاری رہا جب تک یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا قیام عمل میں نہ آیا۔ پھر 2008ء سے یہ انٹری ٹیسٹ اس یونیورسٹی کے زیر انتظام ہورہا ہے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اب اس پورے سسٹم کو اکیڈمی مافیا نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ یہ اکیڈمی مافیا ہزاروںخاندانوں کا نہ صرف خون چوس رہا ہے بلکہ چند ٹکوں کے لالچ میں آئندہ نسلوں کو کرپٹ کرنے اور تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ویسے تو انٹری ٹیسٹ کے آغاز سے ہی اسکی کریڈیبلٹی کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے لگے، جب یہ سلسلہ بڑھا تو ایک مرتبہ پھر اس سسٹم کو ختم کرنے کیلئے موجودہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دوبارہ اوپن میرٹ پر داخلے کی یقین دہانی کرائی اور انٹری ٹیسٹ ختم کرنے کیلئے اُنکے پاس سمری بھی بھیجی گئی لیکن طاقتور اکیڈمی مافیا اتنا مضبوط ہے کہ ایک سال سے سمری پر وزیراعلیٰ کے دستخط نہیں ہو سکے اگر اس مافیا کو چلانے والوں پر پاناما کیس کی طرح جے آئی ٹی بنائی جائے تو لوگ پاناما کیس کو بھو ل جائیں گے۔
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی 20اگست کو پنجاب بھر کے 13شہروں میں بنائے گئے مختلف سینٹرز میں65ہزار سے زائد طلبہ و طالبات نے یہ ٹیسٹ دیا۔ جن میں سے 6ہزار 7سو 66طلبہ و طالبات کو پنجاب بھر کے 17سرکاری اور 21نجی میڈیکل کالجوںمیں جبکہ تین سرکاری اور 9نجی ڈینٹل کالجز میں داخلہ مل سکے گا۔ سرکاری کالجوں کی کل نشستیں 34سو 5اور نجی کالجوں میں 2590 ہیں۔ اس سال انٹری ٹیسٹ کے فوراً بعد پرچہ آئوٹ ہونیکی بازگشت اتنی اونچی ہوئی کہ وزیراعلیٰ کو فوری طور پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں چھ رکنی اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی بنا نی پڑی جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے اسکے نتائج کو فوری طور پر روکنے کا حکم دے دیا ہے، انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کیا آتی ہے اور پھر عدالت عالیہ کیا فیصلہ دیتی ہے یا اسکی روشنی میں حکومت پنجاب نظام تعلیم کو تباہی سے بچانے کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے وہ انشاء اللہ ہمارے سامنے آ جائیگا۔ مختصراً یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اکیڈمی مافیا کس طرح لوگوں کو لوٹ رہاہے۔
پنجاب میں ہم نے انٹری ٹیسٹ شروع کر کے اپنے بنائے گئے نظام امتحانات کو رد کر دیا۔ چونکہ انٹری ٹیسٹ کا مقصد اُسوقت بوٹی، نقل اور امتحانی مافیا کا توڑ تھا تاکہ اہل طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر داخلے مل سکیں۔ لیکن یہ مافیا ختم کرتے کرتے ہم نے اُس سے بھی بڑا اکیڈمی مافیاپورے پنجاب میں پھیلا دیا کیونکہ جن ممالک یا ملک برطانیہ کے اس نظام انٹری ٹیسٹ کے ماڈل کو لیا گیا وہاں اسکو شروع کرنیکی وجہ یہ تھی کہ لوگ اپنی مرضی سے مختلف مضامین کی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں پھر جب کسی ڈسپلن میں اسپیشلائزیشن کرنا چاہتے ہیں تووہ انٹری ٹیسٹ کلیئرکر کے اپنی پسند کی فیلڈ میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں مافیا نے اکیڈمیاں بنا کر لوگوں کو لوٹنے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے چونکہ اسوقت صرف پنجاب میں سر کاری اور نجی میڈیکل کالجز میں ساڑھے چھ ہزار کے قریب امیدواروں کو داخلہ ملتا ہے جس کیلئے ہر سال 60ہزار سے زیادہ امیدوار انٹری ٹیسٹ دیتے ہیں تقریباً95فیصد طالبعلم مقابلے میں آگے آنے کیلئے کوئی نہ کوئی اکیڈمی جائن کرنے پر مجبور ہیں۔ والدین کے مالی حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کیلئے اثاثے تک دائو پر لگا دیتے ہیں۔ دوسری طرف اکیڈمی مافیا اور یو ایچ ایس کے اہل کار کی مبینہ ملی بھگت سے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اکیڈمیاں اپنی کتابیں، نوٹس اور سوالات دیتی ہیں جو کہ کاپی بھی نہیں کیا جا سکتا، انٹری ٹیسٹ کیلئے ماہانہ پچاس ہزار روپے سے لیکر ایک لاکھ روپیہ تک فی طالبعلم خرچ کرنے پر مجبور ہے اور اگر ایک مہینے کاصرف ایم کیٹ کا حساب لگایا جائے تو اکیڈمی مافیا ماہانہ 70کروڑ روپے کے قریب اکٹھا کرتی ہے۔ یہ اربوں روپے کی ڈکیتی کا سوال ہے ؟ یہ سوال وزیراعلیٰ کے سامنے رکھنا ہے کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے صرف ساڑھے چھ ہزار لوگوں کو داخلہ دینا ہوتا ہے لیکن وہ کونسے فارمولے کے تحت 65ہزار لوگوں کا ایم کیٹ کا ٹیسٹ لیتی ہے۔ یونیورسٹی کو انٹری ٹیسٹ لیتے ہوئے دس سال ہونیوالے ہیں کیا اس نے آج تک یہ ا سٹڈی کروائی ہے کہ میرٹ تو 90فیصد سے زیادہ ہوتا ہے لیکن انٹری ٹیسٹ کیلئے 45فیصد والا بھی اہل ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں45سے 60،ساٹھ سے 75اور پھر 75سے 90فیصد نمبر حاصل کرنیوالے طلبہ کا تناسب کیا ہے جو انٹری ٹیسٹ میں مطلوبہ معیار کے مطابق نمبر حاصل کرپاتے ہیں۔ ہم صر ف اکیڈمی مافیا کو پروموٹ کرنے کیلئے اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں۔ اگر یہ ا سٹڈی ہمارے سامنے ہو تو ممکن ہے 40ہزار کے قریب طلبہ ایسے ہوں جو ایم کیٹ دینے سے پہلے سوچ لیں۔ ایک اور سوال قابل غور ہے کہ ایک بچہ 12سال تک محنت کرتا ہے اور محنت کرنے کے بعد وہ ساڑھے دس سو میں سے ایک ہزار نمبر لیتا ہے مگر وہ انٹری ٹیسٹ کلیئر نہیں کرپاتا یا اسے داخلہ نہیں ملتا اُسکی ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ میرٹ بنانے کیلئے 50فیصد نمبر 12سال کی محنت کے ہیں جبکہ 50فیصد نمبر ڈھائی گھنٹے کے امتحان میں دے دیئے جاتے ہیںاور یہ نمبر زیادہ تر وہ طالبعلم حاصل کر پاتے ہیں جو اکیڈمی مافیا کو لاکھوں روپے دیتے ہیں۔جبکہ چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے یا اکیڈمیاں جائن نہ کرنے والوں کیلئے داخلے کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ جو انسانی بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ وزیراعلیٰ کو اگر انٹری ٹیسٹ جاری رکھنا ہے تو پھر یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ پنجاب حکومت کے تحت چلائے جانیوالا امتحانی نظام ناکام ہوچکا ہے لیکن اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام امتحان قابل اعتماد ہے تو پھر انٹری ٹیسٹ ختم کر کے اوپن میرٹ پر داخلے دینے چاہئیں لیکن پھر بھی وہ انٹری ٹیسٹ کو ضروری سمجھتے ہیں تو میرٹ میں انٹری ٹیسٹ کا20فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے

تازہ ترین