• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آفرین ہے اس غیرت مند صحافی پر جس نے مردم شماری کے عبوری اعداد و شمار کی خبر آنے کے بعد اپنے اخبار میں سرخی جمائی کہ پاکستان کی آبادی اکیس کروڑ سے کم ہے… میر صاحب نے کہا تھا، کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے… میر تقی آدھی بات کہہ کر دونا لطف پیدا کرتے تھے۔ ہمارے صحافی نے 21کروڑ سے کم ہونے کی نوید دے کر محنت کشوں کو حوصلہ دیا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پانی ابھی خطرے کے نشاں تک نہیں آیا…
جہاں 21کروڑ کامژدہ سنایا تھا، یہ بھی بتا دیتے کہ 1951ء میں مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ 37 لاکھ اسی ہزار تھی۔ ہم نے ایک کو سات کر دیا ہے۔ تین کو اکیس کر دیا ہے۔ ہمارے ملک کا رقبہ کرہ ارضی کا 0.7 فیصد ہے۔ کل ملا کے اس ایک فیصد سے کم رقبے پر قریب قریب اکیس کروڑ نفوس کی ذمہ داری ڈال دی ہے۔ اللہ کے خاص فضل و کرم سے زمیں کے اس خدا داد ٹکڑے پر دنیا بھر کی آبادی کے تین فیصد کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ رقبے اور آبادی میں ایک اور چار کی یہ نسبت کسی ایٹمی خطرے یا سیاسی سازش سے زیادہ مہلک ہے۔ مگر ہم نہیں مانتے۔
ہم نے آج جو نسل پیدا کی ہے، وہ اگلے ساٹھ برس تک غریب رہے گی۔ امریکہ سے پنجہ لڑانے کا ہمیں خاص شوق ہے۔ 25برس پہلے امریکہ کی آبادی 23 کروڑ تھی۔ اس ربع صدی میں لاکھوں لوگ دنیا کے کونے کونے سے اپنا ملک چھوڑ کر گرتے پڑتے امریکہ چلے آئے۔ اسے نیٹ اینٹری ریٹ (Net Entry Rate) کہتے ہیں۔ اس کے باوجود 2016 میں امریکہ کی آبادی 32کروڑ ہے۔ 25برس میں اضافہ؟ کل نو کروڑ۔ ہم نے اس عرصے میں دس کروڑ بڑھا لئے۔ اس میں افغان مہاجر نہیں گنے۔ آزاد جموں کشمیر کی آبادی شمار نہیں کی۔ گلگت بلتستان کے ہم وطن نہیں گنے۔ مردم شماری کرنے والوں نے اس کے باوجود انیس برس میں آبادی کی تعداد میں 57فیصد اضافہ گن کر بتا دیا۔
ہمیں جنوبی کوریا کی آمریت کی مثالیں دن رات دی جاتی ہیں، وہاں کے زمینی حالات میں ناقابل یقین تبدیلی آئی ہے۔ 1951ء میں جنوبی کوریا کی فی کس سالانہ آمدنی 79 ڈالر تھی۔ تب پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی 97 ڈالر تھی۔ آج جنوبی کوریا میں فی کس سالانہ آمدنی 25000 ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔ ہم پاکستان میں کہیں 1560 ڈالر فی کس سالانہ آمدنی کے آس پاس ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کی کل آبادی پانچ کروڑ ہے اور سالانہ اضافے کی شرح 4۔0 فیصد ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جنوبی کوریا میں آمریت نے ترقی کا راستہ دکھایا۔ ہم نے خود چار آمریتوں کے سائے تلے 33 برس گزارے۔ ان لبوں نے نہ کی مسیحائی… جیسی سقیم اور عقیم ہماری آمریت تھی، ویسی بنجر، قدیم ،ناممکن ہماری قوم رہی۔
ہماری آبادی میں اضافے کی شرح 2.4فیصد سالانہ بتائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 200 سے زیادہ ہے۔ آبادی میں 2.4فیصد سالانہ جیسی شرح رکھنے والے ملکوں میں افغانستان، انگولا، چاڈ، بنین، برکینا فاسو، کانگو، ایتھوپیا، گنی بساؤ، عراق، مالی، موزمبیق، لائبیریا اور نائجیریا جیسے ملکوں کے نام آتے ہیں۔ ہم نے مقابلہ کرنے کے لئے کیسے ناقابل رشک گروہ کا انتخاب کیا ہے، جہاں غربت کا بھوت منڈلاتا ہے، جہاں موت دستک دیتی ہے، وہاں آبادی کا لحاف پھولنے لگتا ہے۔ ایک نکتہ اور دیکھئے۔ آبادی میں زیادہ شرح اضافہ دکھانے والے ان ممالک کا کل رقبہ معلوم کیجئے۔ ان کی کل آبادی کا تخمینہ لگائیے۔ اور پھر بتائیے کہ آبادی میں اس تیز رفتار اضافے سے ہمیں زیادہ خطرہ ہے یا ان ملکوں کو؟
اب تک دنیا بھر میں پاکستان سے زیادہ آبادی والے ممالک صرف پانچ ہیں۔ اب چار رہ گئے۔ لیجئے اس کشاکش میں برازیل کو پچھاڑ دیا۔ اب صرف چین، بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا اس دوڑ میںباقی رہ گئے۔ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں، الخ… برازیل سمیت ان پانچ ممالک میں سے کسی ایک ملک پر انگلی رکھ دیں جس کا رقبہ پاکستان سے کم از کم دوگنا زیادہ نہ ہو۔
2.4فیصد کی شرح سے ہم ہر برس تقریباً پچاس لاکھ افراد پیدا کر رہے ہیں۔ گویا ایک برس میں پورا سوئٹزرلینڈ جن دیتے ہیں۔ اور پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک جیسا معیار زندگی دیا جائے۔ پاکستان کو فلاحی مملکت بنایا جائے۔ جن عقل مندوں سے مشورہ کر کے ہم نے یہ بچے پیدا کئے ہیں، اعلیٰ معیار زندگی کا مطالبہ بھی انہی سے کرنا چاہئے۔ انہی سیانوں سے بجلی، پینے کا صاف پانی اور روزگار بھی مانگنا چاہئے۔
جنوبی کوریا نے چالیس برس تک جم کر تعلیم میں سرمایہ کاری کی۔ ہم بندوقیں خریدتے رہے۔ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچے کتاب اور قلم سے محروم ہیں۔ اپنے شہر یا قصبے میں نظر دوڑا کر بتائیں کہ کتنے نئے پرائمری اسکول پچھلے پچاس برس میں حکومت نے وہاں قائم کئے۔ پانچ سے سولہ برس تک کی عمر اسکول جانے کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس عمر کے ہر دس نونہالوں میں سے چار بچے بچیاں گلی کوچوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ اسکول کا منہ نہیں دیکھا۔ آنے والے برسوں میں چھابڑی لگانے کے لئے بھی تعلیم کی ضرورت ہو گی۔ صرف ایک نسل کے عرصہ حیات میں ہم نے اپنی آبادی 57 فیصد بڑھا لی۔ ہمارے مشرق میں ایک بچہ بھارت میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی متوقع عمر 70 برس ہوتی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کی متوقع عمر صرف 65 برس ہوتی ہے۔ یہ انسانی ترقی میں 50برس کا فاصلہ ہے۔
بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں مبہم جنسی شناخت رکھنے والے یعنی خواجہ سرا افراد کی تعداد ‘‘صرف دس ہزار’’ ہے۔ یہ اردو زبان کا بہت عمدہ استعمال ہے۔ آپ ‘‘محض دس ہزار’’ کہہ دیتے تو آپ کا ہم کیا بگاڑ لیتے۔ محض دس ہزار انسان جو عزت کا لقمہ مانگتے ہیں۔ محض بیس ہزار آنکھیں جو بنیادی انسانی احترام کا راستہ دیکھ رہی ہیں۔محض بیس ہزار ہاتھ جو محنت کرنا جانتے ہیں۔ محض بیس ہزار قدم جو ترقی کی طرف اٹھ سکتے ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں 10کروڑ چونسٹھ لاکھ مرد بستے ہیں۔ عورتیں 48.8فیصد ہیں۔ سوشیالوجی کا کوئی طالب علم کبھی تحقیق کر کے بتائے گا کہ الٹرا ساؤنڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے آمدہ بچے کی جنس معلوم کرنے کی سہولت نے عورت اور مرد کے شماریاتی توازن کو کہاں تک تلپٹ کیا۔ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ دس کروڑ چونسٹھ لاکھ مرد اس ملک میں رہتے ہیں۔ ان کا امتحان یہی ہے کہ اگلے بیس برس میں کم از کم پچاس کروڑ انسان پیدا کئے جائیں۔ بھلے ان انسانوں کا رہن سہن انسانی معیار سے کم ہو گا مگر ہمارے ہاتھ بازو بنیں گے۔ ہم تو شاید اس دنیا میں نہیں ہوں گے لیکن تعلیم، خوراک، علاج معالجے اور روز گار سے محروم یہ افراد ایک دوسرے سے دست و گریباںہوں گے۔ خوب تماشا رہے گا۔ کیا بیس برس کے طویل عرصے میں پچاس کروڑ مزید لوگ پیدا کرنا مشکل ہو گا؟ ہرگز نہیں۔ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح (2:4)کےہوتے ہوئے یہ کچھ مشکل نہیں… ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا… ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار۔

تازہ ترین