• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عوام ایک مظلوم قوم ہیںسوائے ان چند ہزارافراد کے جو کہ اس ملک کی تقدیر کے مالک ہیں جن کو چھینک بھی آجائے تو لندن، امریکہ، فرانس اور یورپ کے مختلف ممالک میں ایسے جاتے ہیں جیسے آپ آفس سے گھر آتے جاتے ہیں۔
پاکستانی عوام تقدیر کے معاملے میں بدقسمت ہیں۔ ہر سیاست داں ان کو خواب دکھاتا ہے،پھر ان کے خوابوں کو لوٹ لیتا ہے۔ 1947ء میں لاکھوں افراد نے یہ حسیں خواب سجائےہجرت کی کہ وہ جب سرزمین پاکستان میں قدم رکھیں گے تو ان پر تقدیر مہربان ہو جائے گی۔ ان کے تمام دکھ، سکھ میں بدل جائیں گے۔ ان کی غربت، امارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ بے سکونی ختم ہو جائے گی۔ نفرتیں محبتوںکا روپ دھار لیں گی۔ ہر طرف امن ہوگا مگر یہاں آ کر تو قسمت ہی بدل گئی۔ خواب بکھر گئے۔ وہ ستم ہوئے کہ کچھ نہ پوچھئے۔یہ کسی غیر نے نہیں کیا۔ یہ ظلم و ستم اپنوں نے اپنوں کے ساتھ کیا اور اب تک جاری ہے۔ کیونکہ ابھی جاںباقی ہے۔ بقول شاعر ؎
ابھی تقدیر کے گلشن میں خزاں باقی ہے
ابھی جلتے ہوئے خوابوں کا دھواں باقی ہے
جان کس کو پیاری نہیں ہوتی؟ مگر یہ جان تب تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کو اچھی غذا ملتی رہے، اچھا ماحول ملتا رہے، پینے کے لئے صاف پانی ملتا رہے، ادویات جعلی نہ ملیں۔ مگر یہاں تو سب کچھ ہی دو نمبر ہوگیا۔ہم یہ بات ریکارڈ پر لا رہے ہیں آنے والے چند برسوں میں پاکستانی ناقص غذاکی وجہ سے خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جائیںگےاور تباہ وبرباد ہو جائیں گے۔
صحت کی بات تو ہم بعد میں کریں گے لوگ انصاف کے لئے دربدر ہوگئے۔ تھانوں میں ذلیل و رسوا ہوگئے۔ انصاف کی بھیک مانگتے مانگتے لوگ مر گئے۔ میڈیا میں وہ واقعات تو ہر کسی نے پڑھے اور دیکھے ہوں گے کہ کس طرح عدالتوں نے دو افراد کو بے گناہ قرار دیا اور ایک طویل مدت تک وہ جیل میں رہے اور جب بے گناہی ثابت ہوئی تو جسم سے روح کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔
کاش اس ملک کے حکمرانوں کی سمجھ میں آ جائے وہ اس عوام کے صبر کا اتنا امتحان نہ لیں۔ آہیں، بددعائیں اور صبر کا اثر ہوتا ہے۔ پھر کوئی ڈاکٹر نہیں بچا پاتا۔ دعائیں اور بددعائیں انسان کی تقدیر کو بدل دیتی ہیں۔
آج کل ٹی وی پر ایک وفاقی وزیر جس تکبر انہ انداز میںتقریریں اور باتیں کر رہے ہیں وہ بیان سے باہر ہے۔ اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز اور بڑی سخت ہوتی ہے۔ بیماری آتے پتہ نہیں چلتا۔ اس ملک کے عوام کیساتھ اس سے بڑا ہیبت ناک مذاق اور کیا ہوگا کہ یہاں کے لوگ خود علاج کو ترسیں اور جن کو ووٹ دیں وہ اپنا علاج باہر سے کرائیں اور جائیدادیں بھی باہر جا کر بنائیں۔
بیگم کلثوم نواز کو گردن کے بائیں طرف غدود کا سرطان ہے ماہرین کے بقول یہ سرطان اتنا خطرناک نہیں اور قابل علاج ہے۔ پھر بھی اس علاج میں ایک سال تو لگ جائے گا۔ حقیقت احوال یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سرکاری اسپتالوں اور اٹامک انرجی کی علاج گاہوں اور لاہور میں واقع انمول میں اس سرطان کا علاج ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پورے ملک میں سرکاری سیکٹر میں کوئی ایسا معیاری اور صاف ستھرا اسپتال نہیں جو حکمرانوں کے معیار کے مطابق ہو۔
بات چلی سرطان کی تو عزیز قارئین آپ کو سن کر حیرت اور افسوس ہوگا کہ پورے ملک میں کینسر کی تشخیص کے لئے PET اسکین مشین سرکاری سیکٹر میں صرف ایک ہے اور وہ بھی لاہور میں ہے۔ شاید اب حکمراں ان سرکاری اسپتالوں میں جہاں سرطان کا علاج ہوتا ہے وہاں PET SCAN کی مزید مشینیں لے آئیں اور کینسر کے مزید اسپتال بھی بن جائیں۔ قارئین کینسر کا علاج انتہائی مہنگا ہے، لوگوں کے گھر تک فروخت ہو جاتے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ کسی حکومت نے یہاں کینسر اسپتال بنانے پر توجہ نہ دی۔ ویسے تو خان صاحب کے اسپتال والے تو کینسر کے دوسری اور تیسری اسٹیج کے مریض بھی نہیں لیتے، اور دعوے بہت کرتے ہیں۔ جب نواز شریف کے ایک قریبی عزیز کے گردے فیل ہوئے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں ڈائیلیسزسینٹرز بنانے کا حکم دیا تھا اور کئی سرکاری اسپتالوں میں ناصرف ڈائیلیسزسینٹرز بنے بلکہ ڈائیلیسز بھی مفت شروع ہوگیا تھا۔ پھر جب نواز شریف کو پہلے دور میں وزارت عظمیٰ سے اتار اگیا تو یہ سینٹر ز اور مریض دونوں مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔
اس طرح سابق گورنر غلام جیلانی مرحوم کو دل کی تکلیف ہوئی اور پی آئی سی بن گیا۔ کھاریاں میں ایک سابق جنرل کی اہلیہ آگ سے جل گئیں تھیںتو سی ایم ایچ میں برن یونٹ بن گیا۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جب کسی بڑے کو کوئی جسمانی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے بعد اس ملک میں اس بیماری کے لئے علاج گاہیں بن جاتی ہیں۔ اب یقیناً کلثوم نواز کی کینسر کی تکلیف کے بعد ملک میں مزید کینسر کے علاج کے لئے ادارے قائم ہوں گے اور جدید مشینیں آئیں گی۔ چلیں اس بہانے سرطان کے مریضوں کی سنی گئی۔ PET SCAN پر ٹیسٹ کی لاگت تیس ہزار روپے کے قریب ہے۔آپ سوچیں ایک غریب مریض یہ ٹیسٹ کرا سکتا ہے؟میاں صاحب آپ کے لئے تیس ہزا رروپے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس ملک میں لاکھوں افراد کی یہ تین ماہ کی آمدنی ہے۔ زندگی ہے کتنی؟ اور انسان دولت اتنی اکٹھی کرتا ہے جو اپنی زندگی میں خرچ بھی نہیںکرپاتا۔ مگر ہمارے ملک میں دولت اکٹھی کرنے کا جنون ہے۔ اس ملک میں کون سا شعبہ ہے جہاں ناانصافی اور زیادتی نہیں۔ آپ بجلی کے محکمے میں چلے جائیں، میٹر، ٹرانسفارمر حتیٰ کہ بجلی کی ایک تار آپ بغیر رشوت دیئے نہیںلگوا سکتے۔ایکسائزمیں آپ کا کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ تھانہ، کچہری غرض ہر جگہ رشوت کا بازار گرم ہے اور ہر چیز پر ٹیکس ہے۔ آپ تنخواہ لیتے ہیں تو ٹیکس دیتےہیں،وہی تنخواہ اکٹھی بنک سے جب لیتے ہیں تو پھر ٹیکس لگ جاتا ہے۔تمام بڑے ڈپارٹمنٹل ا سٹورز کچھ عرصے بعد اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور بعض اشیاکی قیمتیں صرف ایک سال میں ڈبل سے بھی زیادہ کر دی جاتی ہیں۔ ہم ان اشیا کے نام بعض مجبوریوں کی وجہ سے لکھ نہیں سکتے۔ تمام پرائیویٹ اسپتالوں نے اپنے کمروں، ٹیسٹوں، علاج اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں دوسو فیصد اضافہ کردیا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج ہوتا نہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ پرائیویٹ اسپتالوں سے علاج کرا نہیں سکتا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے کا ریٹ 30لاکھ روپے ہو چکا ہے۔مگر حکومت کے کسی رکن کو اس کی خبر نہیں۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں علاج کرانے کی سکت نہیں رہی۔ پھر بھی داد دیں اس غریب عوام کو
ہاتھ سے صبر کا دامن نہیں چھوٹا ہے ابھی
دیکھ ٹوٹا نہیں چاہت کا حسیںِ تاج محل
یہ عوام پھر الیکشن میں اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں کے جھوٹے دعوئوں پر اعتبار کریں گے۔ انہیں ووٹ دیں گے۔ پھر پانچ برس کے لئے مزید غربت اور مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے۔اس غریب عوام کی مصیبتیں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہو جائیں گی۔ ادھر سیاست دانوں کے بچے نئے جوش و ولولے سے دوسری نسل کے غریبوں کو بےوقوف بنانے کیلئے میدان میں اتر آئیں گے کیونکہ ابھی ان غریبوں کی تقدیر کے گلشن میں کئی اور خزائیں لکھی ہوئی ہیں۔ شاید تاقیامت ؎
اک ستم اور میری جاں، ابھی جاں باقی ہے
جسم سے روح کا رشتہ نہیں ٹوٹاہے ابھی

تازہ ترین