• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2002 ء کا واقعہ ہے۔ اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیراعظم تھے۔ انہیں ایک گمنام لڑکی کا خط موصول ہوا کہ ہریانہ کے ڈیرہ سچا سودا کا گروہ بابا ڈیرے میں سیوا کیلئے رہنے والی سادھو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، سینکڑوں لڑکیاں اسکی ہوس کا شکار ہو چکی ہیں۔ انہیں زبان کھولنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، زیادہ تر لڑکیاں شادی کی عمر سے گزر چکی ہیں اس لئے اب وہ ڈیرہ چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتیں نہ ہی انکے گھر والے انکی کسی بات پر یقین کرنے پہ آمادہ ہیں۔ ڈیرے میں موجود لڑکیوں کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے جائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ڈیرہ سچا سودا کے اندرونی ’’روحانی‘‘ ماحول کی یہ پہلی کہانی باہر آئی تھی۔ اسی خط کی ایک کاپی ہریانہ کی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بھی ارسال کی گئی۔ انہوں نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو تفتیش کا حکم دے دیا۔ اسکے بعد اوپر نیچے کئی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں جنہوں نے اس خط کے مندرجات کی گواہی دینا شروع کی۔
گرو بابا بہت پریشان ہوا کہ سادھو چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس نے سوچا کہ اس طرح تو ڈیرہ ہی خالی ہو جائے گا۔ یہ 2000 کی بات ہے، دراصل 1996میں سادھو آئے ہی بہت تھے، لیکن بابا کی سختی، ٹارچر، رویے اور پریشر کی وجہ سے لوگ بھاگنا شروع ہو گئے تو بابا نے ایک پلان بنایا۔ ڈیرے میں کچھ ڈاکٹر بلائے گئے اور سادھوئوں کی برین واشنگ کر کے انکو نامرد بنانے کے آپریشن پر مجبور کیا جانے لگا۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو سادھو بننے کیلئے آئے تھے انہیں سبز باغ دکھائے جاتے کہ اگر بابے کی بات مانو گے تو پرماتما کے درشن ہونگے۔ بابا سارے سادھوئوں کو ایک ایک کر کے بلاتا اور کہتا کہ اگر سادھو بننا ہے، ڈیرے میں رہنا ہے، سیوا کرنی ہے تو جو کہا جائے وہ کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں بتاتا کہ کیا کرنا پڑے گا۔ سادھو مان جاتے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پھر اسکے خاص افراد سادھوئوں کا ذہن بنانا شروع کرتے کہ ایک چھوٹا سا آپریشن کرانا ہے، پھر تمہارا من تمہیں تنگ نہیں کرے گا، درشن ہونگے اور یہ بابا کا حکم ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح بابے نے اپنے سینکڑوں مرد سادھوئوں کو نامرد بنا دیا۔ یہ بابے کے ایک سابق سادھو کے یو ٹیوب پر انٹرویو کا خلاصہ ہے، جو نامرد ہو کر اب ساری زندگی اکیلے گزارنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
ڈیرہ سچا سودا بھارت کے چند بڑے روحانی اور مذہبی مراکز میں شمار ہو تا تھا (چند روز پہلے اسے بند کر دیا گیا ہے)۔ ڈیرے کی ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں 6کروڑ لوگ ڈیرے کے ماننے والے ہیں۔ نامعلوم لڑکی کے خط کے مطابق (1999میں) بابا کا کہنا تھا کہ ڈیرے کی روزانہ آمدنی ایک کروڑ ہے اور وہ حکومت، پولیس، ججوں کو خرید لیتا ہے۔ ڈیرے کے سیاسی اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ نئی دہلی، ہریانہ اور پنجاب کے انتخابات میں ڈیرے کا ووٹ بنک حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کرتا اور سیاسی رہنما گرو بابا کے چرن چھوتے تھے۔ گرو بابا بڑا ماڈرن تھا، شوخ رنگ کی جینز شرٹ، چھوٹی نیکریں شوق سے پہنتا ہے، راک گانے، کنسرٹ، ڈانس، اداکاری، فلمیں بنانا اسکے مشاغل کا حصہ ہیں۔ اسکو راک اسٹار گرو بھی کہا جاتا ہے۔ چند روز پہلے سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے گرو بابا گرمیت رام رحیم انسان کو زنا بالجبر کا مجرم قرار دے دیا تو ہریانہ، پنجاب اور نئی دہلی میں ہنگامے پھوٹ پڑے، کرفیو لگانا پڑا پھر بھی احتجاج کے دوران 36 لوگ ہلاک ہو گئے۔ گرو بابا ایک رانگ نمبر تھا۔
کچھ عرصہ پہلے عامر خان کی سپر ہٹ فلم پی کے میں اسی طرح کے ایک گرو بابا کو بے نقاب کیا گیا تھا، فلم میں ایسے جعلی گرو کو رانگ نمبر کا خطاب دیا گیا۔ گرو بابا نے عامر خان اور پی کے فلم کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن اس فلم نے لوگوں کو اتنا شعوردیا کہ گرو بابا جسکی مرضی کے بغیر ہریانہ کا پتا بھی نہیں ہلتا تھا، آج ہریانہ کی جیل میں ہے۔ گروہ بابا کے پیروکار اسکے پیچھے سیاسی محرکات تلاش کرتے ہیں کیونکہ گرو بابا کانگریس کو سپورٹ کرتا تھا۔ اور پہلا نامعلوم خط بھی بی جے پی کی حکومت میں سامنے آیا اور اب گرو بابا کو سزا بھی بی جے پی کی حکومت میں ہوئی۔
ہو سکتا ہے کہ اس بات میں کچھ سچائی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ رانگ نمبر انکا استحصال کر رہے ہیں۔ کوئی رانگ نمبر مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، کوئی روحانیت کے بھیس میں آتا ہے، کوئی جمہوریت کا راگ الاپتا ہے، کوئی اداروں کے تقدس کے پیچھے چھپ کر اپنا کام دکھاتا ہے، کوئی قوم پرستی، نسل پرستی اور لسانی و صوبائی تفاخرو تعصب کا چورن بیچ رہا ہے۔ کچھ عرصے سے مارکیٹ میں ایمانداری کی جنس کی مانگ پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی تو کرپشن ختم کرنے کی پُڑیا دھڑا دھڑ بکنے لگی۔ یہ رانگ نمبر اپنے آپ کو معاشرے کے مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں، لوگوں کے سفلی جذبات کا استحصال کرتے ہیں، انکے اندر حسبِ حالات مخصوص جنس کی پہلے احتیاج پیدا کرتے ہیں پھر اس احتیاج کی جعلی اور مصنوعی تسکین کا سامان پیدا کرتے ہیں لیکن اس سارے عمل میں ان رانگ نمبروں کی نظر عوام کی جیب پر ہوتی ہے، جہاں عقیدت مند خواتین بھی دستیاب ہوں تو یہ رانگ نمبر گرو بابا بننے میں بھی دیر نہیں کرتے، جہاں سیاسی استحصال ممکن ہو سکے تو اپنے عقیدت مندوں کے سیاسی حقوق سب سے زیادہ بولی لگانے والے خریدار کو بیچ دیتے ہیں۔ یہی رانگ نمبر ہیں جو عوام کو جاہل رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ علم، روشن خیالی، شعوراور ادراک کو یہ اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ عوام کو روحانی ترقی، عقیدے، نظریے، تقدس، رنگ، نسل، ذات پات کے ڈھکوسلوں میں الجھا کر انکے معاشی، سیاسی، معاشرتی، سماجی اور تعلیمی حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ لیکن افسوس ہمارے ہاں نہ کوئی نامعلوم خط سامنے آتا ہے، نہ کوئی سو موٹو نوٹس لیتا ہے اور نہ پی کے جیسی فلمیں بنتی ہیں جو عوام کے ذہنوں سے جہالت کی دبیز تہوں کو کھرچ سکیں۔ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر میدان میں رانگ نمبر راج کر رہے ہیں۔

تازہ ترین