• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسین حقانی جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں انہوں نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان مخالف خیالات کا ایک بار پھر اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی ڈالروں کا مرہون منت ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غالباً ان جیسے افراد کے بیانات سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان ان کے دئیے ہوئے ڈالروں کا ہی مرہون منت ہے تب ہی انہوں نے واشگاف الفاظ میں امریکی ڈالروں کا ذکر کیا ۔ ہماری آستینوں میں ہر قسم کے سانپ ہر وقت موجود رہتے ہیں ان ننگ انسانیت ننگ وطن لوگوں کا مذہب اور ایمان صرف اور صرف ڈالر ہے ان سے ہر قسم کے بیان دلوائے جاسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکیوں کی مسلمان دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے، امریکی صدر نے اپنے چہرے کا نقاب سرکا دیا۔ وہ پاکستان کی تمام قربانیاں پس پشت ڈال کر براہ راست دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ وہ محبت اخلاص کی زبان جانتے ہی نہیں صرف اور صرف زور آزمائی ہی ان کی سمجھ میں آتی ہے جب سے انہوں نے صدارت کا منصب سنبھالا ہے وہ مختلف انداز کی زور آزمائی ہی کر رہے ہیں اب انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک طرح سے اعلان جنگ کردیا ہے کیونکہ امریکی تھنک ٹینکوں کی لگائی آگ میں امریکی صدر آنکھ بند کر کے کود گئے ہیں انہیں پاکستان اپنی ایسی ما تحت ریاست نظر آرہا ہے جس نے امریکہ کی نا فرمانی کرتے ہوئے جوہری قوت حاصل کرلی ہے حالانکہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے ان کی جنگ افغانستان میں لڑی اور ان کے سب سے بڑے حریف روس کو جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جو اپنی پوری قوت سے افغانستان پر قابض ہوچکا تھا کو صرف امریکہ کی خواہش اور سرپرستی میں افغانستان سے نکال باہر کیا ۔ امریکی صدر غالباً ہوش و حواس کھو چکے ہیں یا ان کے مشیران عقل و خرد سے بیگانہ ہوچکے ہیں تب ہی امریکہ افغانستان آکر اپنی سرحد پاکستان کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی صدر نے نہ صرف پاکستان کو خبردار کیا ہے ساتھ ہی اپنی افواج کی کثیر تعداد بھی افغانستان لا رہا ہے ۔ اگر امریکیوں میں ذرا بھی عقل و سمجھ ہوتی تو وہ اس بات پر ضرور غور کرتے کہ روس جیسی سپر پاور جس کی سرحدیں بھی افغانستان سے ملتی ہیں جس کا پورا قبضہ افغانستان پر تھا اسے پاکستانی افواج نے اپنی قلیل تعداد ہونے کے باوجود پسپا ہونے پر مجبور کردیا تھا اب جبکہ آدھے سے زیادہ افغان علاقے تو امریکی قبضے میں ہی نہیں ہیں ان پر طالبان قابض ہیں جنہوں نے پہلے بھی امریکہ اور امریکہ نواز بلکہ امریکی غلام افغان حکومت کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر رکھا ہے ایسے آدھے ادھورے ملک کی سرحد کو امریکی سرحد بنا کر امریکہ کیا اپنی لٹیا ڈبونا چاہتا ہے۔ امریکہ نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو اسے ایسی منہ کی کھانی پڑے گی کہ مدتوں یاد رکھے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ، ویت نام اور دیگر علاقوں میں شکست کو بھلا بیٹھا ہے تب بھی اس نے اپنی سرحدوں سے دور علاقوںمیں میدان کار زار سجائے تھے اب پھر ایک بار وہی حماقت کرنے جا رہا ہے اس وقت کے پاکستان میں اور آج کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے آج کا پاکستان نیو کلیئر پاکستان ہے اس وقت پاکستان ہر قسم کے اسلحہ کے لئے امریکہ کا محتاج تھا آج پاکستان کو جوہری توانائی ہی حاصل نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے دور مار میزائل والا ملک ہے آج کا پاکستان ایسے ایسے میزائل رکھتا ہے کہ وہ ایک قدم بڑھائے بغیر نہ صرف واشنگٹن ڈی سی کو بلکہ پینٹاگون اور نیو یارک کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ دوسرا سب سے اہم ہتھیار جو پاکستان کا اپنا بنایا ہوا ہے ریڈار پر نظر نہ آنے والا میزائل ہے یوں کہا جائے تو قطعی غلط نہ ہوگا کہ امریکہ کے تمام فوجی اڈے پاکستانی میزائلوں کی زد پر ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ تب میں اور اب میں یہ بڑا فرق ہے کہ پاکستان اب چین اور روس کے ساتھ شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کے دفاعی اتحاد کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے فوری رد عمل کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر اپنا مثبت بیان دیا ہے اور روس نے بھی پاکستان کی حمایت میں بیان دیا ہے۔ یوں اب پاکستان کے لئے ہم سایہ ممالک چین اور روس جو دونوں ہی سپر پاور ہیں کی حمایت حاصل ہے اگر امریکہ نے افغانستان کے راستے پاکستان پر چڑھائی کی حماقت کی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی اور امریکی حماقت سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ چین اور روس کی سرحدیں پاکستان کی سرحدوں سے نہ صرف ملتی ہیں بلکہ ہر قسم کی رسد پہنچنے میں دیر بھی نہیں لگے گی جبکہ امریکہ کی رسد سات سمندر پار سے آئے گی اگر وہ ہمیشہ کی طرح نیٹو افواج سے مدد بھی لیتا ہے تو وہ کتنی اور کس قدر حمایت کرسکیں گے نیٹو اور دیگر اتحادی افواج کو بخوبی اندازہ ہے افواج پاکستان کی جرات دلیری کا وہ بے باکی اور سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنے وطن کی حفاظت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ویسے بھی اب پاکستان کسی طرح سے تنہا نہیں ہے چین نے کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں اب چین کے اپنے بہت سے مفادات پاکستان سے وابستہ ہوچکے ہیں سی پیک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے جو چین کو براہ راست مغربی دنیا کے قریب لے آئے گی یہی راہداری روس کے لئے بھی اتنی ہی کار آمد اور مفید ہوگی جتنی کہ چین کے لئے ہوگی دراصل یہ راہداری سی پیک ہی تو ہے جو امریکہ اور اس کے تمام حواریوں کے حلق میں اٹک رہی ہے ان سے برداشت نہیں ہو رہا کہ پاکستان جو کل تک ہر طرح سے امریکہ کا زیر نگیں رہا ہے وہ اب چین اور روس جو اس کے ہمسایہ بھی ہیں سے روابط مستحکم کرے۔ پاکستان جو پہلے ہی جوہری قوت حاصل کر چکا ہے کہیں خود بھی کسی طرح سپر پاور نہ بن جائے ویسے بھی پاکستان ہر قسم کے جدید ترین جوہری ہتھیاروں میں خود کفیل ہوچکا ہے اور بتدریج مختلف مراحل میں وہ جوہری توانائی میں آگے ہی آگے قدم بڑھا رہا ہے۔ امریکہ نے اگر افغانستان جو آدھا ادھورا ہی اس کے قبضے میں ہے، کی سرحد کو امریکی افواج کے ذریعے اپنی سرحد بنایا تو وہ کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے گا اس کی تمام غلط فہمیاں افواج پاکستان دور کردے گی پھر وہ اپنے زخم چاٹنے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ ان شا اللہ پاکستانی حکمرانوں کو بھی شاید کچھ ہوش آرہا ہے تب ہی انہوں نے بھی افواج پاکستان کے ہم آواز ہو کر امریکہ کی دھمکی کا بھرپور جواب دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے اور دشمن کا منہ کالا کرے، آمین۔

تازہ ترین