• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا میں نئی امریکی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکی آمیز بیان میں متنبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔ پہلے بھی امریکہ سے اسی نوع کے بیانات جاری ہوتے رہے ہیں لیکن یہ درمیانی سطح کے افسران کی طرف سے آتے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی امریکی صدر نے براہ راست پاکستان کو مطعون کیا ہو۔ اس تناظر میں بعض حلقوں میں رائے پائی جاتی ہے کہ اب امریکی پالیسی میں پیراڈائم تبدیلی آئی ہے، یعنی امریکی پالیسی یکسر تبدیل ہو گئی ہے اور اب امریکہ پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے ایسی پابندیاں عائد کرے گا جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔بعض مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے خلاف ایسی کارروائی کر سکتا ہے جیسی اس نے عراق کے خلاف کی تھی۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح سے امریکہ افغانستان میں جنگ جیت سکتا ہے ؟ غالب امکان یہ ہے نئی فوجی کمک کے باوجود امریکہ افغانستان میں طالبان کو ختم نہیں کر سکتا اور آخر کار اس مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے گا جس میں طالبان کو حکومت میں شامل کیا جائے گا۔
ویسے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ بڑھکیں مارنے کے عادی ہیں اور ان کی دھمکیوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے لیکن جس طرح چین اور روس نے فوری طور پر امریکہ نئی افغان پالیسی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ اس سے پہلے جب بھی امریکہ پاکستان سے’ ڈو مور ‘ کامطالبہ کرتا تھا تو چین خاموشی اختیار کر لیتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اس سلسلے میں چینی امریکیوں کے ہم خیال ہیں۔ لیکن اس مرتبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد چین نے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ بیان جاری کرتے ہوئے پاکستان کا دفاع کیا ہے۔ روس نے بھی برملا پاکستان کی حمایت کی ہے۔غالباً روس اور چین کے پاس ایسی اطلاعات ہیں جن کے مطابق امریکہ پاکستان کے خلاف بہت جارحانہ پالیسی اپنانے جا رہا ہے۔
واشنگٹن کے بعض حلقوں میں تاثر پایا جاتا ہے کہ اب جتنی پاکستان مخالف فضا امریکہ میں کبھی بھی نہیں تھی۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب امریکہ پاکستان پر جس طرح کی پابندیاں عائد کرنے جا رہا ہے وہ پریسلر امنڈمنٹ سے بھی زیادہ سخت ہوں گی۔اب کی مرتبہ نہ صرف پاکستان پربطور ملک کے پابندیاں عائد ہوں گی بلکہ بہت سے افراد بھی ان کا نشانہ بنیں گے۔ یہ امکان بھی ہے کہ امریکہ نہ صرف پاکستان پر ڈرون حملوں کی بھرمار کردے گابلکہ باقاعدہ بمباری بھی کرے گا۔ فوجی ساز و سامان کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اب امریکہ کے پاس ایسے ڈرون ہیں جو چھ گھنٹے کی بجائے چوبیس گھنٹے تک فضا میں پرواز کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب امریکہ بہت دور دراز کے اڈوں سے پاکستان پر ڈرون حملے کر سکتا ہے اور اب چوبیس گھنٹے فضامیں رہنے کی سکت کی وجہ سے یہ ڈرون اپنے اہداف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ گویا کہ اب امریکہ پاکستان کے لئے زمین مزید تنگ کرسکتا ہے۔ مزید برآں چونکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے اس لئے ان کو سپلائی پاکستان کی بجائے ہوائی جہازوں سے بھی کی جا سکتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی افغان حکمت عملی میں ہندوستان کو ایک شراکت دار مانتے ہوئے معاشی ترقیاتی پروگراموں میں سرمایہ کاری کے لئے کہا ہے۔ کچھ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے کیا گیا ہے بلکہ امریکہ کی طویل المیعاد پالیسی میں چین کو گھیرا ڈالنے کے لئے بھی ہندوستان دوست افغانستان ضروری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین نے اس پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے فوری ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اس وقت افغانستان کی زمینی صورت حال امریکہ کے لئے انتہائی دشوار ہے۔ طالبان چالیس فیصد افغانی علاقے پر قابض ہیں اور انہوں نے بڑے شہروں میں خود کش بمبار حملوں سے افراتفری پیدا کی ہوئی ہے۔ جنگ میں طالبان روز بروز نئے علاقوں پر قبضہ جمانے میں کافی کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لئے صدر ٹرمپ نے تقریباً چار ہزار فوجیوں کی نئی کمک بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ جب ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی طالبان کو سرنگوں نہیں کر سکے تو چار ہزاد کا اضافہ کونسا معجزہ دکھا سکتا ہے۔ مقامی ہونے کی وجہ سے طالبان طویل عرصے کے لئے امریکہ کے خلاف جنگ لڑ سکتے ہیں جبکہ امریکہ غیر معینہ عرصے تک اس جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس لئے آخرکار امریکیوں کو طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑے گا جس میں پاکستان بھی اپنے آپ کو ایک فریق سمجھتا ہے۔پاکستان کسی بھی صورت میں افغانستان میں ہندوستان کی گرفت کو منظور نہیں کرے گا\۔امریکہ نے ہندوستان کو افغانستان میں ایک اہم فریق کے طور پر منظور کرکے پاکستان کو اپنے آپ سے بہت دور کر لیا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو یہ پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان ’ڈو مور‘ پرہر گز عمل نہیں کرے گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں امریکہ پاکستان کے خلاف کونسے اقدامات کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی تقریر اور واشنگٹن میں پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں کی رائے ہے کہ امریکہ پاکستان پر اسی قسم کی پابندیاں عائد کرے گا جیسی کہ اس نے ایران، روس اور شمالی کوریا کے خلاف عائد کر رکھی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کے جاری رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن طالبان سے رابطے رکھنے والے افراد اور اکائیوں پر پابندیاں لگائے جانے کا امکان ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ لگنے والی پابندیاں پہلے سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع ہوں گی۔ امریکہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے اداروں میں بھی پاکستان کا ناطقہ بند کر سکتا ہے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں مبینہ ٹھکانوں پر بمباری بھی کر سکتا ہے۔
ہمارے خیال میں امریکہ پاکستان کے خلاف انتہائی اقدامات سے گریز کرے گاکیونکہ چین اور روس کی موجودگی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے پاکستان کے خلاف فوجی اقدامات کی منظوری نہیں لی جا سکے گی۔ ویسے پاکستان کو امریکی امداد کے نہ ملنے سے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پاکستان مخالف پالیسیاں اپنا لیں تو اس کے بہت گمبھیر نتائج برآمد ہو سکتے ہیںکیونکہ پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے، اس کی در آمدات بڑھ رہی ہیں اور اس کی برآمدات میں کمی آتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی کافی نچلی سطح پر آچکے ہیں اور اس صورت حال میں پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں کا محتاج ہوگا جس کے حصول میں امریکی ٹانگ اڑا سکتے ہیں۔ المختصر پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

تازہ ترین