• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی دو دن پہلے خبر آئی کہ میانمار کی فوج اور وہاں کے بظاہر جمہور نوازوں کے گٹھ جوڑ سے قائم حکومت نے لگ بھگ سو کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو بڑے بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا جس میں شیر خوار بچوں کو دریا میں پھینکنے کے ساتھ ساتھ نہتے لوگوں کو زندہ جلانے کےواقعات بھی شامل ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف قتل و غارتگری کا یہ کھیل بظاہر دہشت گرد حملے کے جواب میں کیا گیا جو اب تازہ اطلاعات کے مطابق کافی مشکوک دکھائی دے رہا ہے۔ ان روح فرسا مظالم کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا پناہ کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو بنگلہ دیشی حکومت نے پناہ کی تلاش میں آئے ڈیڑھ سو سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار کی جانب دھکیل دیا جہاں سے وہ بہ مشکل اپنی جانیں بچا کر آئے تھے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے جو پرخطر حالات میں سات معمولی کشتیوں پہ سوار ہو کر دریائے ناف کے بنگلہ دیشی حصے میں پہنچے تھے۔
اگست کے اوائل میں بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ روہنگیا سمیت تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کردیں گے۔ اسکے ساتھ ہی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ملک میں چالیس ہزار روہنگیا غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، اگرچہ اس اعلان کے مطابق تمام ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا مگر یہ جلد ہی واضح ہوگیا کہ اصل ہدف صرف روہنگیا ہیں۔ اس فیصلے کا بنیادی مقصد ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنا تھا۔ اس سرکاری اعلان کے بعد ہندو شدت پسند حکمران جماعت بی جے پی کے کئی رہنمائوں نے کھلےعام روہنگیا کو ان کی قانونی حیثیت سے قطع نظر بار بار نشانہ بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو اس کے متعلق تشویش کا اظہار کرنا پڑا۔ انھوں نے حکومت ہند کو یاد دہانی کرائی کہ ’’رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو ان ممالک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہئے جہاں ان کے ساتھ اچھے سلوک کی توقع نہ ہو‘‘۔ مودی سرکار کی یہ سوچ پناہ گزینوں کے لئے بھارت کی روایتی پالیسی کے عین برعکس ہے جس کے مطابق تبت، سری لنکا یہاں تک کہ افغان پناہ گزینوں کا بھی کھلے دل سے استقبال کیا جاتا تھا۔ حکومت کی یہ معاندانہ پالیسی ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاس ہے۔ اگرچہ بھارت میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چالیس یا پچاس ہزارسے زیادہ نہیں اور یہ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور یہ کہ یہ مجبور ومقہور لوگ کسی بھی صورت ملک کیلئے کسی خطرے کا باعث نہیں ہوسکتے مگر حکومت نے ان کو ایک سیکورٹی رسک کے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔ اس وجہ سے روہنگیا کے خلاف ایک نفرت والا ماحول بن گیا ہے بلکہ اس طرح کے لیبل سے ان کو مذہبی دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر مسلح ہندو گروہوں کو ان کے خلاف تشدد پر اکسایا جارہا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر قاتلانہ حملوں میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ان حملوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو حکومت کی طرف سے انصاف کی کوئی امید نہیں بلکہ الٹا انہیں ہی جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ اس سال کے اوائل میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہنے والے مٹھی بھر روہنگیا مسلمانوں کو ہندو شدت پسندوں کی جانب سے کھلےعام قتل کی دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ ان میں ہندو آبادی کے زیر اثر لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں شامل تھیں یہاں تک کہ چیمبر آف کامرس نے کھلے عام روہنگیا لوگوں کو علاقے سے نہ نکلنے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی۔ ان دھمکیوں پر حکومت نے کوئی تادیبی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش تماشائی رہنے میں ہی عافیت سمجھی کیونکہ وہ کسی بھی صورت ہندو شدت پسندوں سے الجھنے کا رسک نہیں لے سکتی۔
روہنگیا خطے میں شاید سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں۔ میانمار حکومت، نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی معیت میں ان لوگوں کے خلاف بدترین قتل وغارتگری میں ملوث ہے۔ ان کی افواج اور بودھ دہشت گرد انتہائی وحشیانہ طریقے استعمال کرکے مردوں، خواتین اور بچوں کو قتل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران روہنگیا آبادی والے علاقوں کو فسادات اور فوجی کشی کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا، بیسوں گائوں کو جلا کر راکھ کردیا گیا اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا۔ صرف میانمار کے اندر سوا لاکھ سے زائد روہنگیا بے گھر کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں انہیں مستقل بنیادوں پر نازی طرز کے وحشیانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید برآں انہیں کسی بھی حال میں کیمپوں کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ممکنہ طور پر ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کے طور پر بیان کیا ہے، مگر اسکے باوجود وہ ان کے مسلسل قتل عام کو روکنے میں ناکام ہے۔ اگر متاثرین مسلمان اور وہ بھی بہت غریب اور بے سہارا نہیں ہوتے تو شاید ہم نام نہاد بین الاقوامی برادری کے ضمیر کو برما حکومت کے خلاف کچھ ٹھوس اقدامات کرتے دیکھ سکتے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں نے روہنگیا کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقات کے مطابق میانمار کی افواج روہنگیا اقلیت کے خلاف قتل وغارت، تشدد، جبری گمشدگی، بلاوجہ گرفتاری، جبری مزدوری اور زنا بالجبر جیسے ماورائے قانون اقدامات میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ کئی شدت پسند بودھ گروپ حکومت کے تعاون سے روہنگیا کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دینےمیں ملوث ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے کئی رپورٹوں میں بودھ گروپوں، فوجی اور نیم فوجی دستوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے حملوں میں بلا امتیاز پوری کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے 2004 میں ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا لوگوں کی آزادی کو کافی محدود کردیا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی شہریت کو موثر طریقے سے رد کردیا گیا ہے۔ ان پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہیں جن میں کئی قسم کے جبری ٹیکس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں شادی کرنے کے حوالے سے بھی کئی قدغنوں کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں عالمی برادری کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کی حالت زار اور کسمپرسی مزید کربناک بن جاتی ہے۔
افسوس کہ ان کے پاس مقامی طور پر بھی کسی حمایتی ملک کا سہارا نہیں ہے جو ان کی طرف سے بات کرسکے یا کسی بھی قسم کی بین الاقوامی معاونت کے حصول کے لئے کوئی امداد کرسکے۔ سرکاری طور پر میانمار کی حکومت نے ان کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا ہے اور اس وجہ سے انہیں شہری حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی میسّر نہیں، مقامی طور پر انہیں بنگلہ دیشی کہا جاتا ہے مگر یہ وضاحت بنگلہ دیش کو قبول نہیں، نتیجتاً جب وہ پناہ کی تلاش میں بنگلہ دیش جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں وہاں آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ روہنگیا ظلم اور جبر کی چکّی میں پس رہے ہیں، مسلسل لٹ بھی رہے ہیں اور کٹ بھی رہے ہیں مگر کوئی ملک ان کے حق میں موثر آواز نہیں اٹھا رہا۔
تقدیر کے قاضی کا ہے فتویٰ یہ ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

تازہ ترین