• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا شمار ایشیا کے تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ممالک میں ہوتا ہے۔تیز رفتار ترقی کے اِس سفر نے ملک میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو بھی تیز کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کےہر بڑے شہر میں ترقی یافتہ ممالک کی دیکھا دیکھی کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے کا رجحان چل نکلا ہے، مگر ہمارے ہاں اُن ممالک کی طرح ویسی سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔پاکستان میں اِس وقت 4عمارتیں 200 میٹر اور 15 عمارتیں 100 میٹر سے زیادہ بلند ہیں ۔ جو بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی ہے۔بلڈرز حضرات کثیر منافع کمانے کیلئے کم جگہ پر کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کرتے ہیں۔عجلت میں بنائی گئی اِن عمارتوں کی تعمیر میں بلڈنگ کوڈ آف پاکستان کا خیال نہیں رکھا جاتا۔بلند و بالا عمارتوں کی فروخت کے بعد اُن کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے ان عمارتوں کے گرنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ہمارا ملک فالٹ بیلٹ پرواقع ہے جہاں ہمہ وقت زلزلوں کا خدشہ رہتا ہے ۔ اِن کثیر المنزلہ عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے زلزلے کی صورت میں قیمتی جانوں کے ضیاع کا اندیشہ بھی موجود رہتا ہے۔بلند و بالا عمارتوں میں لفٹ نہ ہونے کی وجہ سے رہائشیوں کو بھی مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔اِس تناظر میں منگل کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت ہوئی۔عدالت نے تعمیراتی کمپنیوں کے حکم امتناع کو ختم کرتے ہوئے پابندی کو برقرار رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایک حد سے زیادہ شہر نہیں پھیل سکتا۔رسول اللہﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل فرمایا تھاکہ’’ جب مدینے کی آبادی حد سے بڑھ جائے گی تو ہم اِس شہر میں توسیع نہیں کریں گے بلکہ نیا شہر تعمیر کریں گے‘‘۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ بلڈنگ کوڈ کو بہتر بنایا جائے اور عمارات کی بلندی محدود کی جائے۔

تازہ ترین