• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے برطانیہ کے اشاعتی ادارے نے مہر ستار اور نواز شریف کا قصہ خوب بیان کیا ہے۔ میرے لئے پورا قصہ دوبارہ تحریر کرنا ممکن نہیں ہے مگر آخری معنی خیز پیرا دوبارہ تحریر کردیتا ہوں۔ ’’مہر ستار اپنے اور دیگر مزارعین کے گھر اور رقبے بچانے کے لئے نکلا تھا، دہشت گرد قرار دے دیا گیا، نواز شریف تو ملک بچانے کے لئے نکلا تھا، پہلے ہی اتنی جائیدادیں موجود تھیں، آخر میں لندن فلیٹس کی محبت میں مارا گیا، اداروں سے جو بھی ٹکرائے گا پاش پاش ہوجائے گا‘‘۔ بہرحال نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن کی سیاست کا محور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نظر آتے ہیں۔ 1999سے لے کر آج تک دونوں بھائیوں کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ سابق آمر پرویز مشرف نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کی آفر کی۔ جس کی تصدیق جنرل (ر) مشرف نے چند ہفتے قبل انٹرویو میں بھی کی ہے کہ انہوں نے صرف شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کی آفر کی تھی، مگر عمران خان اور چوہدری نثار کو ایسی آفر کبھی نہیں کی۔ شہباز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف کو کہا تھا کہ بھائی جان (نوازشریف) کے بغیر آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ بہرحال گزشتہ چار سالوں کے دوران بھی نوازشریف نے متعدد مرتبہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے لئے کہا مگر شہباز شریف نے ہمیشہ معذرت کی اور کہا کہ آپ میرے لیڈر بھی ہیں اور بڑے بھائی بھی۔ ہم آپ کی قیادت میں ملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ جیسے منصب کو لینے سے بار بار انکار کرنا کسی عام انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے بہت بڑا ظرف درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح نوازشریف بھی شہباز شریف سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ شفقت کا یہ عالم ہے کہ شہباز شریف کی کوئی بات ٹالتے نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ کان بھرنے کے لئے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں مگر نوازشریف ہر بات ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ اس لئے ناقدین سمیت در پردہ قوتوں کو دراڑ ڈالنے کی کوششوں میں ہمیشہ ناکامی کا سامنا رہا۔ شریف خاندان کا اتحاد ہی کچھ قوتوں کو کھٹکتا ہے۔ اسی وجہ سے طے کیا گیا تھا کہ نوازشریف کے بعد شہباز شریف کو بھی منظر عام سے ہٹایا جائے گا۔ ایک سال قبل ایک کالم میں لکھا تھا کہ نوازشریف آخری نشانہ نہیں ہیں بلکہ نوازشریف پہلی وکٹ ہیں۔ اگر پہلی وکٹ کو گرا دیا گیا تو پھر باقی تمام وکٹوں کی قطار لگ جائے گی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کو کون بھول سکتا ہے؟ اگر کبھی سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور سانحہ ماڈل ٹائون کی شفاف تحقیقات ہوئیں تو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھے گا۔ بہرحال نوازشریف کی مسلم لیگ ن میں حیثیت اس درخت کی سی ہے، جس کی جڑیں مضبوط ہونگی تو تنا پھلدار ہوگا۔
نوازشریف کی متنازع نااہلی کے بعد شہبازشریف کے حوالے سے ایک متنازع خبر چلوائی جارہی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ جب مخصوص ایجنڈا دے کر کہا جاتا ہے کہ خبر میں ان پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہے۔ آج دی نیوز کی تحقیقاتی خبر کو پڑھ کر ملتان میٹرو میں کمیشن کا معاملہ سمجھ آیا ہے۔ خبر کی گہرائی میں جانے سے پہلے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ مجھ سمیت جنوبی پنجاب کا ہر باسی شہباز شریف کا مشکور ہے کہ اس نے ہمیں وہی میٹرو دی جو آج اسلام آباد اور لاہور کی سڑکوں پر دوڑ رہی ہے۔ اب ہمیں لاہور اور راولپنڈی کی سڑکوں پر چلتے ہوئی جنوبی پنجاب کی کپاس کی خوشبو نہیں آتی۔ ملتان میٹرو منصوبے کا جنوبی پنجاب کی احساس محرومی دور کرنے میں بڑا اہم کردار ہے۔ بہرحال دی نیوز کی خبر کا عنوان ہے کہ چینی کمپنی کی تاریں کون ہلارہا ہے؟ ہر ذی شعور شخص پاکستان میں جانتا ہے کہ یہاں پر تاریں کون ہلاسکتا ہے۔ سیاستدان سب سے کمزور ٹارگٹ ہوتے ہیں اور کسی سویلین آدمی کی جرات نہیں ہے کہ وہ تاریں ہلانے کا تصور بھی کرے۔ کمپنی کے حوالے سے جو بھی معلومات میڈیا میں چلوائی گئیں۔ پنجاب حکومت اور پھر ایس ای سی پی کی تحقیقات کے مطابق اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہباز شریف، مشاہد حسین سید سمیت وزیراعلیٰ کے دفتر نے مذکورہ خطوط کو جعلی قرار دیا ہے۔ دی نیوز کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ جن خاتون سینیٹر کا خط پیش کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بھی اس کے جعلی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ خط صحت کی قائمہ کمیٹی کے لیٹر ہیڈ پر ہے اور صحت کی وزارت 17ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو دے دی گئی ہے۔ یعنی کہ اس خط کو تیار کرنے کے لئے جو لیٹر ہیڈ استعمال ہوا وہ کافی پرانا تھا۔ اسی طرح حقائق بتاتے ہیں کہ مارچ 2017میں چیف سیکرٹری پنجاب نے ایس ای سی پی کے خط کے جواب میں واضح لکھا تھا کہ مذکورہ چینی کمپنی اور نہ ہی اس نام نہاد پاکستانی شریک کار کمپنی نے ملتان میٹرو بس منصوبے پر کام کیا ہے۔ جن تین کمپنیوں نے میٹرو ملتان کے لئے کام کیا ہے انہوں نے اپنا مشترکہ جواب بھی جمع کرایا ہے کہ چینی کمپنی سمیت کیپٹل انجینئرنگ کو ملتان میٹرو میں کوئی ٹھیکہ نہیں دیا گیا۔ اسٹیٹ بنک نے بھی ایس ای سی پی کو بتایا ہے کہ شہباز شریف پر جس کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ ایسی کسی کمپنی کا پاکستان میں بینک اکائونٹ ہی نہیں ہے۔ جب کوئی بینک اکائونٹ ہی نہیں ہے تو پھر پیسے کیسے منتقل ہوئے؟ ایس ای سی پی کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے چالیس سالوں میں کیپٹل انجینئرنگ نام کی کوئی کمپنی کبھی رجسٹرڈ ہی نہیں ہوئی۔ ایف بی آر کے پاس بھی کمپنی کا کوئی ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یہ سب حقائق منظر عام پر آچکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جس جعلی کمپنی کی دستاویز دکھا کر کہا جارہا ہے کہ اسے ٹھیکہ دیا گیا ہے تو جعلی ریکارڈ کے مطابق بھی دیکھا جائے تو اس کمپنی کی حد لمٹ 2ارب روپے ہے۔ دو ارب سے زیادہ کا کام کمپنی نہیں کرسکتی۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی کمپنی 2ارب روپے کا کام کرے اور اس میں سے 1.8ارب روپے کمیشن دے دے۔ تحقیقات سے یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ یہ معاملہ ایک فراڈ تھا مگر کیا کوئی اس بات کی تحقیقات کی جرات کرے گا کہ پاکستان سے بیٹھ کر چینی کمپنی کی ڈوریں کون ہلا رہا تھا یا پھر سانحہ ماڈل ٹائون کی طرح خاموشی پر اکتفا کیا جائے گا۔
میں نے ہمیشہ کرپشن کے خلاف بات کی ہے اور کرپشن پر خوب لکھا ہے۔ مگر آج جو چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ ان پر افسوس ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب تمام مقدمات سے بری ہوچکے ہیں۔ معتبر اطلاع ہے کہ جب کرپشن مقدمات سے بری ہونے کی انہیں اطلاع دی گئی تو زرداری صاحب کو خود بھی یقین نہیں آیا۔ آج ہم پی پی پی کی پانچ سالہ ریکارڈ کرپشن، راجہ رینٹل کے چالان، گیلانی کے نیب ریفرنسز، این آئی سی ایل، ای او بی آئی کہاں سے شروع کروں کہاں ختم کروں۔ ہم عجب کرپشن کی غضب کہانیاں بھول چکے ہیں اور ہر داغ پر چونا پھیر رہے ہیں۔ جن کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے ان پر کالا رنگ پھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاید اس کا پہلا جواب تو این اے 120کے الیکشن میں مل جائے اور آخری جواب 2018کے انتخابات میں مل جائے گا۔

تازہ ترین