• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موبائل اور نیٹ سے ہمارا کلچر اس تیزی سے تبدیل ہوا ہے کہ ہر چیز بدلتی نظر آرہی ہے ، یاتو ایسا اندھیرا آگیا ہے کہ آس پاس کچھ سجھائی نہیں دیتا تو یا پھرروشنی اتنی تیز ہوچکی ہے کہ آنکھیں ہی چندھیا گئی ہیں، اب دیکھیں نہ عید ایسی تیزی سے آتی اور گزر جاتی ہے نہ آنے کا پتہ چلتا ہے اور نہ جانے کا پتہ چلتا ہے ، آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس کا تعلق موبائل فون یا انٹرنیٹ سے کیسے بن گیا ، سوال
درست ہے لیکن انٹرنیٹ اور موبائل نے زندگی کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے اور آنے والی خوشی اور گزرنے والے وقت کے آنے جانے کا پتہ ہی نہیں چل پاتا، تبدیلیاں بھی عجیب آئی ہیں ۔مجھے وٹس ایپ پر ایک بڑا خوبصورت ڈیزائن ہوا کارڈ ملا جس میں مجھے دعوت دی گئی تھی کہ فلاں صاحب اپنے اہل و عیال کے ساتھ حج کی سعادت کیلئے روانہ ہورہے ہیں اس خوشی کی تقریب میں آپ کی شرکت ہمارے لئے باعث صد افتخار ہوگی، میں اس تقریب میں جا تو نہیں سکا لیکن معلوم ہواہے کہ بڑی شاندار تقریب اور بڑا پرتکلف کھانا تھا، قوالی کا بھی بندوبست تھا اور ایک معروف مولانا صاحب کا وعظ بھی تھا، تقریب میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ موصوف اب یہ ساتویں حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں اور بہت سارے عمرے بھی ادا کرچکے ہیں ، تقریب میں ان کی واپسی کی تاریخ اور آمد کے بعد ایک بڑی دعوت کے انعقاد کا بھی ایڈوانس میں اعلان کیا گیا ، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے گلے میں حقیقی خوشبو والے پھول کے علاوہ مصنوعی پھولوں اور نوٹوں کے ہار بھی ڈالے گئے اور تقریب میں شریک حاضرین کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ تسبیح ، جائے نماز اور آب زمزم کے تحفے واپسی پر دیئے جائینگے ، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حج کی سعادت کیلئے جانے والے تمام حجاج کرام کے حج کو قبول فرمائے اور ان کو خیر خیریت سے رکھے اور جو لوگ روضہ رسول پر حاضری اور خانہ کعبہ کے طواف کی تڑپ رکھتے ہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی اس تڑپ اور خواہش کو سیراب کرے ، اس تیزی اور کلچر کی تبدیلی کی ایک اور مثال بھی بڑی دلچسپ ہے۔ میں نے دوست کے گھر باہر جہاں گاڑی پارک کی تھی معلوم ہوا کہ ابھی کم از کم ایک گھنٹہ گاڑی نکالنا تقریباً مشکل ہے ،معلوم ہوا کہ دوست کی اسٹریٹ میں ایک صاحب ایک بہت مہنگا بیل قربانی کیلئے لارہے ہیں اور اس بیل کے استقبال کیلئے ان کی برادری کے لوگ اکٹھے ہوچکے ہیں اور بڑی بے تابی سے بیل کا انتظار ہورہاہے ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ پٹاخوں اور شڑشڑیوں کی آواز نے بیل کی آمد کی اطلاع دے دی، اتنا زبردست استقبال مجھے بھی تجسس ہوا کہ یہ کونسا بیل ہے جس کے استقبال میں باقاعدہ آتشبازی ہورہی ہے ، آتش بازی کی ٹھاہ ٹھوہ ختم ہو ئی تو ڈھول باجے والوں نے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا، معلوم ہوا کہ بیل سرگودھا کے ایک گاؤں سے منگوایا گیا ہے اور یہ صاحب ہر سال خوبصورت ترین بیل کی قربانی دیتے ہیں اور بیل کی آمد پر اپنی برادری کے تمام لوگوں کو بیل کے استقبال کی دعوت دیتے ہیں اور بیل کا استقبال ایسی زبردست طریقے سے کیاجاتا ہے میں اور میرا دوست اسی طرح بیل کو دیکھنے کے تجسس میں آگے بڑھتے گئے تو معلوم ہوا ڈھول کی تھاپ پر باقاعدہ رقص ہورہاہے اور کچھ لوگ ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں اٹھائے ویلیں کروا رہے ہیں، اور جب بیل کو ہم نے سامنے دیکھا تو تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ، گورا چٹا بیل اور اس کے گلے میں ہار اس کی خوبصورتی میں اضافہ کررہے تھے اور بیل ڈھول والوں کے پیچھے پیچھے بڑے سکون سے چل رہا تھا، جیسے اسے اس طرح چلنے کی باقاعدہ تربیت دی گئی ہو، جبکہ بیل کسی غصے یا ناراضی کا اظہار بھی نہیں کررہا تھا کہ اس کا خوف محسوس ہورہاہو اور مزے کی بات کہ ویڈیو کیمرے والی ٹیم اس ساری خوشی اور بیل کی آمد کی باقاعدہ ویڈیو بنا رہی تھی، یہ ساری صورتحال میرے لئے بہت دلچسپ تھی لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ صورتحال اور بدلے ہوئے کلچر کی ایک نئی تصویر یہ ہے کہ مجھے کئی دنوں سے ذوالحج اور عید کی آمد کی مبارکباد کے پیغامات موصول ہورہے ہیں اور اب تک تقریباً بلا مبالغہ مجھے اڑھائی تین سو پیغامات مل چکے ہونگے اور زیادہ پیغامات کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ میں وہ پہلا شخص یا خاتون ہوں جو سب سے پہلے آپ کو عید کی مبارکباد دے رہا یادے رہی ہوں، اصل میں یہ سارا کالم لکھنے کا جہاں نئے کلچر اور صورتحال پر روشنی ڈالنا ہے وہاں یہ بھی ہے کہ میری طرف سے عید کی ایڈوانس مبارک ہو اور میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سب اخبارات سب چینلز اور سب کالمسٹ سے پہلے آپ کو عید مبارک دے رہاہوں………!

تازہ ترین