• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی سال2016-17کے آخری آٹھ ماہ میں پاکستان کو20.2 ارب ڈالر تجارتی خسارے کا سامنا تھا جو2015-16کے مقابلے میں 5.2 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ ایسے وقت پرجب تجارتی عدم توازن بڑھتے بڑھتے اس سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں ہرسال وفاقی بجٹ کو خسارے کا سامنا رہتا ہے اور طرح طرح کے ٹیکس لگا کر بجٹ کا توازن قائم رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے بجا طور پر وزارت تجارت کو ہدایت کی ہے کہ برآمدات کی حوصلہ افزائی، تجارتی ٹیرف کو منطقی بنانے اور پالیسی تضادات کو دور کرنے کے لیے جامع پلان تیار کیا جائے۔ انہوں نے پیداوار، جدت پسندی اور کم لاگت کے انفراسٹرکچر پر جو زور دیا ہے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ مسابقتی دور میں برآمدات کا نفع بخش ہونا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ خوش قسمتی سے قدرت نے پاکستان کو موسم اور جغرافیہ کی صورت میں ایک ایسا سازگار ماحول دے رکھا ہے کہ جس سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنی زرعی و صنعتی پیداوار برآمد بھی کر سکتے ہیں لیکن موثر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث گزشتہ 70سال میں درآمدات کا حجم ہرسال برآمدات کے مقابلے میں زیادہ رہا جس کے نتیجے میں ملک تجارتی عدم توازن کا شکارہے۔ ادائیگیوں کا عدم توازن پیدا کرنے والا سب سے بڑا عنصر پاکستانی تجارت میں پیٹرولیم کی درآمد ہےلیکن اس کے بغیر بھی گزارا نہیں ہو سکتا ملک میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر بہرحال موجود ہیں انہیں بروئے کار لانے کے لیے از سر نو پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تجارتی عدم توازن کی ایک وجہ اشیائے تعیشات کی درآمد اور استعمال ہے اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے دوسری طرف پاکستان کو برآمدات بڑھانے کے لیے خصوصاً جدید ترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے وسائل موجود ہیں ان وسائل کی تلاش اور انہیں بروئے کار لانے میں 21کروڑ کی افرادی قوت بہت مددگار ہو سکتی ہے۔ اس عمل میں بیروزگاری کم کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔

تازہ ترین