• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے کالم میں میرا ارادہ دو تین اہم موضوعات پر لکھنے کا ہے اس لئے اختصار سے کام لینا ہو گا۔ یوں بھی ان موضوعات پر ہر طرف تجزیوں کے سمندر بہہ رہے ہیں اور ماضی کو بار بار دہرایا جا رہا ہے اس لئے یہ حقائق اب قارئین کوا زبر ہو چکے ہیں چنانچہ تاریخ کو دہرانے کی بجائے میرا فوکس حال اور مستقبل پر ہو گا ۔میں اس سے قبل بھی دوبار ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان اور امریکی رویے پر لکھ چکا ہوں۔ اس حوالےسے واشنگٹن میں ایسے دوستوں اور واقف کاروں سے رابطہ رہتا ہے جو امریکی حکمت عملی، انتظامیہ کی سوچ اور مستقبل کی آپشنز کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور تھوڑا بہت ان معاملات پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔ظاہر ہے کہ حکمت عملی کوئی جامد شے نہیں ہوتی اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ اس لئے میں آپ کو موجودہ سوچ سے آگاہ کروں گا جو مستقبل میں تبدیلی کے سانچے میں بھی ڈھل سکتی ہے باخبر دانشوروں کے مطابق فی الحال ’’ فوجی حل ‘‘ امریکی مطمح نظر نہیں اگرچہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے اور صدر ٹرمپ سے لیکر جنرل ٹلرسن تک یہی تاثر دیا جارہا ہے ۔امریکہ ملٹری حل کے مضمرات اور خطرات کا شعور رکھتا ہے اور اسے شاید آخری چارہ گاہ کے طور پر بروئے کار لائے، فی الحال مقصد دبائو ڈالنا، دبائو بڑھانا اور اپنے چند بنیادی مطالبات منوانا ہے ۔امریکی انتظامیہ پر ہندوستان اور افغانستان کا ’’متحدہ ‘‘ اثر خاصا کارگر ہے اور انہی کی سوچ امریکی حکمت عملی کی تشکیل میں کردار سرانجام دے رہی ہے۔ اس لئے امریکی انتظامیہ محسوس کرتی ہے کہ اب پاکستان سے گفتگو (ڈائیلاگ) کا دائرہ سکڑ گیا ہے کچھ زیادہ سننے اور سنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ امریکی انتظامیہ کے بقول وہ پاکستان کی ماضی کی قربانیوں، تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف فوجی اقدامات کا سن سن کر تھک چکے ہیں اور اب موجودہ صورتحال اور چیلنجز سے نکلنے کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔ ماضی تاریخ بن چکا اور تاریخ مستقبل کو نہیں بدل سکتی ۔پاکستان ماضی کا ذکر کرنے کی بجائے کوئٹہ اور پشاور میں موجود طالبان حقانی نیٹ ورک وغیرہ کو ختم کرے کیونکہ وہ پاکستانی زمین کو افغانستان پر حملوں کے لئے استعمال کرتے ہیں جن میں امریکی فوجی بھی مارے جاتے ہیں ۔امریکہ کے پاس شواہد موجود ہیں کہ انہیں پاکستان نے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں۔ اس لئے اگر پاکستان ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو امریکہ ڈرون حملے بھی کرے گا۔ سرجیکل اسٹرائیک بھی کرے گا اور اگر حالات بے قابو ہوئے تو ان پناہ گاہوں پر بمباری بھی کرے گا لیکن ان اقدامات سے قبل پاکستان سے گفتگو کی جائے گی اور فوجی حل سے کم تر حل تلاش کرنے کی کوششیں کی جائے گی ۔ اسی مقصد کے لئے ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ کی سربراہی میں وفد بھیجنے کا فیصلہ ہوا لیکن چونکہ پاکستان فی الحال ’’غصے‘‘ کی حالت میں ہے اس لئے وفد کی آمد کو روک دیا گیا ہے ۔ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ گفتگو کے دروازے کھلے رکھے جائیں اس لئے بہتر ہوتا کہ امریکی وفد کو آنے دیا جاتا اور اسے اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے ساتھ ساتھ واضح پیغام بھی دیا جاتا۔
واشنگٹن کے ایک باخبر تجزیہ کار کے مطابق ٹلرسن کی تقریر کا یہ فقرہ قابل غور ہے ۔ ٹلرسن نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاید ہم جیت نہ سکیں لیکن تمہیں بھی کسی صورت فتح نصیب نہیں ہو گی ۔ چنانچہ امریکی حکمت عملی فی الحال یہ ہے کہ طالبان پر دبائو بڑھا کر انہیں گفتگو کی میز پر لایا جائے ۔ دبائو بڑھانے کے لئے امریکہ طالبان پر مربوط حملے کرے گا، ان کے زیر تسلط علاقوں میں (Counter Insurgency)اور دہشت گردی کو دبانے یا ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے گا۔ اس طرح فوجی دبائو بڑھا کر طالبان کو گفتگو کے لئے آمادہ کیا جائے گا۔البتہ امریکہ یقین رکھتا ہے کہ پاکستان سے ڈائیلاگ کا دائرہ (Space)بہت محدود ہو گیا ہے اور اب صرف طالبان کی پناہ گاہوں کے ضمن میں بات کی جائے گی۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن بے عزت ہونے کی بجائے عزت بچا کر نکلنے کا متمنی ہے چونکہ اسے علم ہے کہ وہ باعزت انداز سے نکلنے کا موقع کھو چکا ہے ۔چنانچہ وہ افغان مسئلے کو کسی طرح حل کرکے وہاں اپنی موجودگی محدود کرے گا اور رہنمائی (Advisary)کا کردار برقرار رکھے گا۔ اگرچہ امریکی فوج اور امریکی کانگرس میں پاکستان بارے تاثر نہایت خراب ہے ان دونوں اداروں میں پاکستان کے حامی کم اور دشمن زیادہ ہیں لیکن فی الحال امریکی حکمت عملی یہی ہے کہ پاکستان کے حوالے سے کشتیاں نہ جلائی جائیں اور نہ مایوس ہوکر انتہائی اقدام کا سوچا جائے۔ ان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ میں یہ رائے جڑ پکڑ چکی ہے کہ ہندوستان اور افغانستان پاکستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا رہے جتنا پاکستان ان دونوں کو پہنچا رہا ہے۔ چنانچہ ہمدردی کا پلڑا ان ممالک کی جانب جھکا ہوا ہے اور اس جھکائو میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے جہادیوں کا کردار اہم ہے۔ میرے نزدیک یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی ہے کہ ہم امریکہ، امریکی پالیسی سازوں اور تھنک ٹینکس کو یہ سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ ہندوستان کس طرح بلوچستان او رپاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے کس طرح بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور کس طرح کلبھوشن جاسوسی نیٹ ورک پاکستان میں آگ لگا رہا ہے ۔افغانستان پر حملہ آور ہونے والے اور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لئے افغانستان کے ساتھ طویل بارڈر کو ’’سیل‘‘ کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان اس حوالے سے امریکہ پر اپنا نکتہ واضح نہیں کر سکا اور نہ ہی امریکی حمایت حاصل کر سکا ہے ۔جب کہ افغان حکومت اپنی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال رہی ہے قدرتی طور پر امریکہ اپنے پیدا کردہ تابع فرمان افغان حکمرانوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے اور ان کی بات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے جبکہ پاکستان واشنگٹن میں موثر لابی سے محروم ہے۔ مودی کی ٹرمپ سے ملاقاتیں، امریکی انتظامیہ سے ملاقاتیں اور رابطے اپنا رنگ دکھا رہے ہیں جبکہ پاکستان نے نئی امریکی انتظامیہ میں راستہ بنانے اور اپنا نقطہ نظر سمجھانے کی موثر کوششیں نہیں کیں۔ پاکستان کی دوسری بڑی ناکامی امریکی رائے عامہ کی ’’پاکستان ناپسندیدگی ‘‘ ہے جسے بنانے اور ڈھالنے میں انتظامیہ کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی اپنا کردار سرانجام دیتا ہےچنانچہ امریکی رائے کی اکثریت بھی امریکہ کے ’’پاکستان جانب سخت رویے‘‘ کی حمایت کرتی ہے اور اس امریکی الزام کو سچ سمجھتی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے جو امریکی فوجیوں کے تابوت بھجوا رہے ہیں جبکہ ہندوستان امریکہ کی مدد کر رہا ہے ۔پاکستان امریکی انتظامیہ تک اپنا نقطہ نظر کیوں نہیں پہنچا سکااور امریکی رائے عامہ کو کیوں متاثر نہیں کرسکا،یہ حکومت پاکستان کے لئے غوروفکر مقام ہے اگر پاکستان صرف سعودی عرب کےذرائع استعمال کرکے امریکی حکمت عملی بدلنے کا خواہاں ہے تو یہ مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان مخالف ہندوستان اور افغانستان کا امریکی انتظامیہ پر پاکستان کے حوالے سے سعودی عرب کی نسبت زیادہ اثررہے چنانچہ امریکہ پاکستان سے عملی کارکردگی (Action)کی توقع رکھتا ہے نہ کہ گفتگو کے ذریعے ٹال مٹول کی۔ فی الحال شاید پاکستان پر معاشی پابندیاں اور دوسری سختیاں عائد نہ کی جائیں لیکن دبائو کی ناکامی کی صورت میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فوجی اقدامات کے لئے تیار رہیں جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے گا، اس کے ایٹمی پروگرام کا بھی خطر ہ ہوگا ملک میں خوف وہراس پھیلے گا اور عالمی سطح پر پاکستان کی سبکی ہو گی چین، روس اور دوسرے پاکستان دوست ممالک ان اقدامات کی مذمت کریں گے اور اقوام متحدہ میں پاکستان مخالف اقدامات کا راستہ روکیں گے لیکن عملی طور پر وہ امریکی فوجی اقدام کی راہ میں حائل نہیں ہوسکیں گے۔
کالم ختم ہو گیا۔چند اہم موضوعات رہ گئے۔ یار زندہ صحبت باقی ۔ پھر ان شاءاللہ فی الحال عید منائیے اور میرے ساتھ مل کر بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کے لئے دعا کیجئے ۔ وہ ایک نیک، بہادر اور بردبار خاتون ہیں اور مشرقی اقدار کی علامت ہیں۔

تازہ ترین