• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دسمبر انیس سو اٹھاسی کی بات ہے جن دنوں بینظیر بھٹو نے پہلی بار پاکستان کی بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا تھا تو بلاول ہائوس کراچی میں باغبانی کیلئے ایک نیا مالی بھرتی ہو کر آیا تھا یہ مالی بلاول ہائوس کے لان پر تب تک کام کرتا رہا تھا جب تک چھ اگست انیس سو نوے کو اسوقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کئی الزامات جن میں اغوا برائے تاوان، بد انتظامی، فائرنگ اور قتل جیسے سنگین الزامات شامل تھے، میں ان کی حکومت برطرف نہ کی۔ اور اس چھ اگست والی شام ایسے تمام الزامات صدر غلام اسحاق خان کی ’’عزیز ہموطنو !السلام علیکم‘‘ والے ری سائیکلڈ خطاب کا حصہ تھے۔ کہ ایسے آپریشن کہ جس میں ریڈیو پاکستان اور شاہراہ دستور پر فوجی جیپ اور ٹرک دیکھ جاتے ہیں ۔ غیر مصدقہ رپورٹس تو یہ بھی ہیں کہ اس آپریشن کا خفیہ نام ’’مرتضیٰ بھٹو‘‘ آپریشن رکھا گیا تھا۔ بینظیر حکومت کے خاتمے کے بعد آصف زرداری تو مرتضیٰ بخاری کیس سمیت کئی مقدمات میں گرفتا رہوگئے تھے بلکہ بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی کے کئی رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ بلاول ہائوس کے ملازمین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا ان میں بتاتے ہیں کہ آصف زرداری کا ایک تھری ڈرائیور اور باورچی بھی شامل تھا۔ آصف علی زرداری کے اس خاص اعتماد والے ملازم سے تفتیش میں ملک کی طاقتور ایجنسی کے جس کرنل نے اس سے پوچھ گچھ کی تھی وہ کوئی اور نہیں وہی بلاول ہائوس کا ’’مالی‘‘ تھا۔
اس سے قبل بینظیر بھٹو نے اپنی حکومت کے خاتمے پر بلاول ہائوس میں جو پریس کانفرنس کی تھی اس پریس کانفرنس شروع سے پہلےپچھلی کانفرنس میں انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے براہ راست الزامات ملک کی دو بڑی طاقتور ایجنسیوں پر لگائے تھے۔
جام صادق علی کو سندھ کا نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا تھا اور جام اپنا حلف اٹھانے کے فوری بعد سندھ میں اسوقت کی معزول وزیر اعظم کی پارٹی کے ہر سطح کے لیڈروں، منتخب اراکین، اور کارکنوں کے خلاف دبائو، لالچ اور انتقامی کارروائیوں پر اتر آیا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد جام پی پی پی کے رکن قربان علی شاہ کے گھر پہنچا تھا اور اسے نگران حکومت میں شامل ہو نے کیلئے دبائو ڈالا تھا۔ پی پی پی کے اسوقت کے ارباب رحیم ، ارباب فیض محمد، اور ایم این اے قاضی عبدالمجید عابد اپنی وفاداریاں تبدیل کرگئے تھے۔
قائم علی شاہ جیسے رہنما پر بھی ایم کیو ایم کے استقبالیہ کیمپوں پر فائرنگ کے الزامات پر مقدمے قائم کر کے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ یہی سندھ میں صدرغلام اسحاق کے داماد عرفان مروت کو وزیر داخلہ بنایا گیا تھا اور سیاسی انتقامی کارروائیوں کی باقی سب تاریخ ہے۔ اسی تاریخ میں وینا حیات کے ساتھ ہو نیوالی زیادتی بھی شامل ہے تو غریب پی پی پی کارکن عیسیٰ بلوچ اور اس کی اہلیہ، اور پی پی پی خواتین راحیلہ ٹوانہ اور منیرہ شاکر سمیت کئی خواتین کے ساتھ خفیہ کےسینٹر کراچی میں عقوبتیں بھی سب ایوان صدر کی مرضی اور اس کے لگائے ہوئے سندھ میں ایس ایچ او ٹائپ جام صادق علی کے احکامات پر ہو رہا تھا۔
اسوقت کے صدر غلام اسحاق خان نے تعزیرات پاکستان میں اغوا اور اغوا برائے تاوان کی دفعات میں ترمیمی صدارتی حکم کے تحت ان میںملنے والی سزائوں کو بدلتے ہوئے سزائے موت کردی تھی محض اس لیے کہ ایسے الزامات کا سامنا آصف علی زرداری کو مرتضی بخاری کیس میں تھا۔ مرتضیٰ بخاری کیس میں اہم ملزم غلام حسین انڑ زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کو آمادہ ہوئے تو جیل سے نکلوا کر تمام لاڑکانہ ضلع انکے صوابدید پر چھوڑ دیا گیا اور ضلع کونسل کے چیئرمین کا انتخاب اس ملک میں وفاداریاں تبدیل کروانے کی مضحکہ خیز اور واہیات مثال لاڑکانہ کی ان دنوں کی ہے جب خریدے گئے اراکین کو کراچی سی ایم ہائوس اور دیگر جگہوں پر رکھنے کی شروعات کی گئی تھی۔ بہر حال جام ایسے ہنرمیں ایوب خان کے بی ڈی نظام میں ہارس ٹریڈنگ کے وقتوں سے یکتا تھے ۔ یہ جو کل یاروں کے یار کئی صحافیوں کی طرف سے اپنے دربار میں’’بڑے دل والے‘‘ کے القاب پانے والے آصف زرداری کہہ رہے تھے کہ وہ کسی سے بھی انتقام نہیں لیتے انکی انتقام پسندی کی ایک مثال خود انکے کسی وقت یار خاص غلام حسین انڑ ہیں۔ جب انڑ نے جام کے جبر اور لالچ میں آصف زرداری سے وفاداری تبدیل کرلی۔ تو پی پی پی کی دوسری حکومت کے دنوں میں انڑ تب تک جیل یا زیر حراست رہے جب تک اسپتال کے بسترپر انکا شدید بیماری میں دم نہیں نکلا۔ یہی پی پی پی کے ایم پی اے علی ہنگورو کے ساتھ دوسرے دور میں ہوا۔
پی پی پی کاانتقامی نشانہ جی ایم سید جیسے معمر رہنما بھی بنے جوتادم مرگ بستر جناح اسپتال میں زیر حراست رہے۔یہ جو کل بھائی صاحب کہہ رہے تھے ان کے دور حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا نہ تو کیا یہ غائب شاہ بلوچ اور سندھی قوم پرست کارکن سیاسی قیدی نہیں؟
پی پی پی کا دوسرا دورحکومت مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد فاروق لغاری کےہاتھوں ختم ہوا آصف علی زرداری گورنر ہائوس پنجاب سے پھر گرفتار ہوکر لانڈھی جیل پہنچے۔ اس سے قبل ایک بڑی منصوبہ بندی سے زرداری اور مرتضیٰ بھٹو کے مابین چپقلش کی سچی جھوٹی اسٹوریاں بنائی گئیں۔ پرنسس اینڈ پلے بوائے جیسی دستاویزی فلمیں۔ جب مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوا تو بینظیر بھٹو کی حکومت اتنی غیر مقبول ہو چکی تھی کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر اکثر رائے ذرداری کے حق میں منفی بنی۔ اپنی کتاب فیتھ یونٹی ڈسپلن میں جرمن محقق حین جی کیئسلنگ نے لکھا ہے کہ تب طاقتور خفیہ ایجنسی میںفاروق لغاری کے قریبی عملداروں کے حلقے نے مرتضیٰ بھٹو کو مبینہ طور پر قتل کروایا اور اس کا کیس زرداری پر فٹ کیا گیا۔ وہ اس لیے کہ بقول کتاب کے مصنف زرداری نے کسی کے ذریعے کسی کی کوئی خفیہ طور پر وڈیو بنوائی تھی ۔ یہ اصل میں وہ باتیں ہیں جو ان دنوں پریس کلبوں اور ملک میں تھڑوں پر ہو رہی تھیں۔
دوران قید سول لائن تھانے کراچی میں جیل سے لاکر آصف زرداری کی انیس سو نناوے میں مبینہ زبان کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ اسوقت کے جیل سپرنٹنڈنٹ شہرت والے پولیس افسر ڈاکٹر نجف مرزا کو زرداری نے آج تک معاف نہیں کیا۔
ان پولیس افسروں کو بھی تھانیدار سے ایس پی اور ایس پی سے ڈی آئی جی تک لگوایا گیا جنہوں نے یا تو آصف زرداری پر کم سختیاں کی تھیں یا پھر انکے صدارتی دور میں ان پولیس افسروں کو ترقیاں اور بڑے عہدے دئیے گئے جنہوں نے دوران قید آصف زرداری کو رعایتیں یا سہولتیں دی تھیں۔ آصف زرداری کی نوازشات کی روشن مثال وہ پولیس والے بھی ہیں جن پر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے الزامات تھے۔ کئی کو تو سندھ میں پولیس اور ریونیو کے تمام معاملات کا مالک بنایا گیا۔
لیکن زیادہ تر آصف علی زرداری پر مقدمات اور طویل قیدبندی جیسی مہربانیاں جب تک بینظیر زندہ رہیں انکے شوہر ہونے کے ناتے ہی روا رکھی گئیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ یہاںتک کہ حیدرآباد سندھ میں اغوا ہونیوالے پی آئی اے کے طیارے کا مقدمہ بھی اسوقت کے وزیر اعظم کی مبینہ مرضی تھی کہ زرداری پر ڈالا جائے۔ یہ سب مہربانیاں ریاست نے انکے سامنے تب تک روا رکھیں جب تک بینظیر زندہ تھیں۔ جب بینظیر نہ رہیں تو انکو صدارت کی مسند پر بٹھایا گیا۔ اب واقعی وہ اس لیے تیس سے زائد کیسوں سے نکل گئے کہ اکثر ان پر ریاست نے جھوٹے مقدمات بنائے تھے یا انہوں نے ’’سچ کا ساتھ ‘‘دینے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔اگر وہ اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات پھر کریں تو انصاف کا گھنٹہ پھر بجنے لگے گا۔

تازہ ترین